• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 36476

    عنوان: رضاعت

    سوال: گذارش ہے کہ ایک عورت نے ایک بچی کو دودھ پلایا ، اب وہ بچی بڑی ہوگئی ۔ لیکن اس (یعنی پہلی عورت کی رضاعی بیٹی )نے ایک اور بچی کو دودھ پلایا ، پر جب یہ دوسری بچی جس نے بعد میں دودھ پیا ہے، بڑی ہوگئی اور پہلی عورت نے اپنے بیٹے کا نکاح اس لڑکی سے (جو رضاعی رشتہ میں اس لڑکے کی بھانجی اور اس کی ماں کی نواسی لگتی ہے) کروادیا جس کو تقریبا 15/ مہینے ہوچکے ہیں اور دو دفعہ حمل بھی ضائع ہوچکاہے، لڑکی کی حقیقی والدہ اس بات سے انکار کررہی ہیں کہ مجھے نہیں پتا کہ کب میری بیٹی کو دودھ پلایا گیا ہے اور اگر اقرار کرتی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟جس نے دودھ پلایا ہے وہ قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہے کہ میں نے دودھ پلایا ہے ۔ براہ کرم، مسئلہ کی وضاحت فرمائیں کہ : (۱) کیا لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ طلاق ہوگی کہ نہیں؟(۲) کیا حق مہر لاگو ہوگا؟(۳) اگر حمل ہے تو اس کا کیا کرے؟(۴) اگر نکاح جائز نہیں تھا اور ہوچکاہے تو کفارہ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 36476

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 455=48-3/1433 اگر میاں بیوی کا رضاعی ماموں بھانجی ہونا شرعی شہادت (دو عادل مرد یا ایک مرد اور عادلہ عورتوں) سے ثابت ہوجائے؛ تو مذکور سوالات کا جواب حسب ذیل ہوگا۔ (۱) دونوں کا نکاح، نکاحِ فاسد ہوا، اب معلوم ہونے پر تفریق واجب ہے۔ وفي النہایة: إذا وقع في قلبہ أنہا صادقة فالأولی والأحوط أن یتنزہ عنہا (قاضي خاں: ۱/۴۲۱) (۲) مہر کی ادائیگی واجب ہوگی، فلو وطئت لہا کما المہر (شامي: ۴/۴۱۵) (۳) حمل کو ساقط نہ کرائیں؛ بلکہ اس کی ولادت ہونے دیں، اس نکاح کے ذریعے جو بچہ پیدا ہوگا وہ ثابت النسب ہوگا: ویثبت نسب الولد المولود في النکاح الفاسد (ہندیة: ۱/۳۳۰) وفي الہدایة ویثبت نسب ولدہا؛ لأن السبب یحتاط في إثباتہ إحیاء للولد؛ فیترتب علی الثابت من وجہ (الہدایة: ۲/۲۳۲-۲۳۳) (۴) اب شوہر پر لازم ہے کہ وہ زبان سے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی سے تعلقِ زوجیت ختم کردیا، پھر بیوی عدت گذارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے: وبحرمة المصاہرة لا یرتفع النکاح حتی لا یحل لہا التزوج بآخر إلا بعد المتارکة وانقضاء العدّة (شامي: ۳/۳۷) وقد صرّحوا في النکاح: بأن المتارکة لا یتحقق إلا بالقول (شامي: ۲/۲۷۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند