معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 36029
جواب نمبر: 36029
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 200=115-2/1433 اصل مسئلہ تو شروع میں لکھ دیا گیا ہے کہ ولیمہ کا مسنون ومستحب طریقہ یہ ہے کہ زوجین کی ملاقات کے اسی روز یا اس کے اگلے روز دعوتِ ولیمہ کی جائے، احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کی دعوت زفاف کے بعد کی ہے۔ عن أنس رضي اللہ عنہ قال: أولم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین بنی بزینب بنت جحش فأشبع الناس خبزًا ولحمًا (مشکاة: ۲۷۸) وعنہ رضي اللہ عنہ وکان أول ما أنزل في مبتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزینب بنت جحش أصبح النبي صلی اللہ علیہ وسلم عروسًا، فدعا القوم فأصابوا من الطعام ثم خرجوا وبقي رہط منہم الحدیث، وقال في الفتح: وحدیث أنس في ہذا الباب صریح في أنہا أي الولیمة بعد الدخول لقولہ فیہ، أصبح عروسًا بزینب فدعا القوم (إعلاء السنن: ۱۱/۱۱) البتہ اگر کسی نے دعوت ولیمہ زوجین کی قربت سے پہلے کردی تو بعض حضرات کے قول کے مطابق اس سے بھی ولیمہ کی سنیت ادا ہوجائے گی جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے، صاحب مرقاة ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، قیل: أنہا تکون بعد الدخول، وقیل عند العقد وقیل عندہما (مرقاة: ۶/۲۵۰) غالبا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ولیمہ کی مشروعیت اظہار خوشی وغیرہ کے لیے ہے، اور یہ خوشی نفس عقد سے بھی حاصل ہوجاتی ہے، نیز حدیث میں بھی اس کی صراحتاً ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے زفاف کو ولیمہ کیل یے شرط کہا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند