معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 33964
جواب نمبر: 33964
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1450=514-10/1432 بلوغت کے بعد جب تک درستی عقل اور بدن میں کمال وپختگی نہ پیدا ہوجائے شادی نہ کرنی چاہیے، اعضاء میں پورا نمو (کمال وپختگی) ہونے سے پہلے شادی کرنے میں قویٰ ضعیف ہوجاتے ، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”بہت تھوڑی عمر میں شادی کردینے میں بہت سے نقصان ہیں، بہتر تو یہی ہے کہ لڑکا جب کمانے کا اور لڑکی جب گھر چلانے کا بوجھ اٹھاسکے اس وقت شادی کی جائے“ (بہشتی زیور جز ۹/۶۳)۔ (۲) جو لڑکے تعلیم میں مصروف ہوں ان کی شادی قدرے تاخیر سے کرنے میں مضائقہ نہیں اور بہتر یہی ہے کہ ان کی شادی کچھ تاخیر سے ہو یا اگر عمر ۲۰ سال یا اس سے اوپر ہوچکی ہے تو شادی کردی جائے اور والدین نان ونفقہ کے سلسلے میں کچھ تعاون کریں،نیز ایسی صورت میں ترک تعلیم کرکے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی بھی اجازت ہے۔ (۳) اللہ تعالیٰ جس طرح اندھے لنگڑے لولے چرند پرند کو رزق دیتا ہے اسی طرح پندرہ سال کی عمر میں شادی کرنے والے کی بیوی کو بھی رزق دینے پر قادر ہے، البتہ حتی الوسع انسان اسباب اختیار کرنے کا مکلف ہے، اسی بنا پر حدیث شریف میں ایسے نوجوانوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو مجامعت کے لوازمات (بیوی بچوں کا نان ونفقہ او رمہر کی ادائیگی) پر قادر ہوں اور جن نوجوانوں میں اس کی قدرت نہیں اس کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ رزق دینے میں خود مختار ہیں ، کسی کے رزق کو فراخ کرتے ہیں اور کسی کے رزق کو تنگ کرتے ہیں، یہ اللہ کی اپنی مرضی ہے اس لیے اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر کوئی اشکال نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند