• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 33964

    عنوان: نكاح كے لیے صحیح عمر كیا هے؟

    سوال: میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ اسلام میں شادی کے سلسلے میں عمر کا کیا حکم ہے؟ہمارے دوستوں اورعلماء کے مابین کے ا س بارے میں نزاعی مسئلہ چل رہا ہے۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ (۱) اگر پندرہ سالہ لڑکا شادی کرنے کی بات کہے تو کیا اس کے والد کو اس کی بات ماننی چاہئے ؟وہ کہتاہے کہ اسلام میں شادی کے لیے صرف بلوغت ہے اور کچھ نہیں۔ میرے دوست کا کہناہے کہ اسلام میں پندرہ سال ہے مگرہم دنیاوی امور میں مصروف ہوں اس لیے ہم اپنے بچوں کی شادی ان کی تعلیم پوری ہونے سے قبل نہیں کراتے ہیں۔(۲) تو کیا جو بیٹا شادی کرناچاہے ہم اس کی دنیاوی تعلیم کو ترکردیں اور اسے کام تلاش کرنے کے لیے کہیں تاکہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کو نان ونفقہ فراہم کرے چونکہ والدین اس کی مدد نہیں کرسکتاہے ؟(۳) لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رزق پہلے ہی لکھ دیاہے تو کیا کسی کو پندرہ سال کی عمر شادی کرنا چاہے خواہ وہ غریب ہو؟ اس لئے کہ اللہ اس کی بیوی کو رزق دے گا نہ کہ وہ؟ تو پھر آج لوگ بھوکے کیوں ہیں؟ اللہ ان کو کیوں نہیں دیتاہے؟

    جواب نمبر: 33964

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1450=514-10/1432 بلوغت کے بعد جب تک درستی عقل اور بدن میں کمال وپختگی نہ پیدا ہوجائے شادی نہ کرنی چاہیے، اعضاء میں پورا نمو (کمال وپختگی) ہونے سے پہلے شادی کرنے میں قویٰ ضعیف ہوجاتے ، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”بہت تھوڑی عمر میں شادی کردینے میں بہت سے نقصان ہیں، بہتر تو یہی ہے کہ لڑکا جب کمانے کا اور لڑکی جب گھر چلانے کا بوجھ اٹھاسکے اس وقت شادی کی جائے“ (بہشتی زیور جز ۹/۶۳)۔ (۲) جو لڑکے تعلیم میں مصروف ہوں ان کی شادی قدرے تاخیر سے کرنے میں مضائقہ نہیں اور بہتر یہی ہے کہ ان کی شادی کچھ تاخیر سے ہو یا اگر عمر ۲۰ سال یا اس سے اوپر ہوچکی ہے تو شادی کردی جائے اور والدین نان ونفقہ کے سلسلے میں کچھ تعاون کریں،نیز ایسی صورت میں ترک تعلیم کرکے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی بھی اجازت ہے۔ (۳) اللہ تعالیٰ جس طرح اندھے لنگڑے لولے چرند پرند کو رزق دیتا ہے اسی طرح پندرہ سال کی عمر میں شادی کرنے والے کی بیوی کو بھی رزق دینے پر قادر ہے، البتہ حتی الوسع انسان اسباب اختیار کرنے کا مکلف ہے، اسی بنا پر حدیث شریف میں ایسے نوجوانوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو مجامعت کے لوازمات (بیوی بچوں کا نان ونفقہ او رمہر کی ادائیگی) پر قادر ہوں اور جن نوجوانوں میں اس کی قدرت نہیں اس کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ رزق دینے میں خود مختار ہیں ، کسی کے رزق کو فراخ کرتے ہیں اور کسی کے رزق کو تنگ کرتے ہیں، یہ اللہ کی اپنی مرضی ہے اس لیے اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر کوئی اشکال نہیں ہوتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند