• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 32217

    عنوان: میاں بیوی میں شدید اختلافات

    سوال: عرض یہ ہے کہ ہم میاں بیوی میں شدید اختلافات ہیں، ہمارے تین بچے ہیں، شادی کو دس سال ہوچکے ہیں، بڑ ا بیٹا حفظ کررہا ہے۔ میں شرعی پردہ کرتی ہوں، پر گھر کا ماحول میرے شوہر کی وجہ سے ایسا ہے کہ گھر کم مدرسہ زیادہ ہے، شوہر ہر وقت نماز اور قرآن پڑھتے ہیں، میری کوئی بات نہیں سنتے کہ عورت کی بات نہیں سننی چاہئے۔ مذہبی لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے، مگر دین صرف نماز اور قرآن تک محدود ہے، میں اور میرے بچے گھر میں سہمے ہوئے رہتے ہیں، اتنا دلبرداشتہ ہوگئی ہوں کہ میں نے پچھلے ہفتے ، استغفر اللہ، اپنی جان بھی لینے کی کوشش کی، لیکن میرے شوہر نے خیال نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے بچانے کی کوشش کی، اللہ نے زندگی تو دی تو میں بچ گئی۔ بچوں کی وجہ سے میں ساتھ رہ ر ہی ہوں، ورنہ ہم دونوں کا بستر بھی الگ ہے، میں ایک ڈاکٹر ہوں اور پاکستان میں ایسسٹنٹ پروفیسر تھی، یہاں میں ایک نوکرانی کی حیثیت سے رہ رہی ہوں، اس جگہ بالکل دل نہیں لگتا، میرے شوہر کہتے ہیں کہ اگر میں نے تم کو چھوڑ دیا تو اپنے بچے تم خود پالنا، محبت ختم ہوگئی ہے بالکل۔ براہ کرم، مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟

    جواب نمبر: 32217

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1068=239-6/1432 خود کشی کرنا حرام ہے، اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے، اس طرح کے شیطانی وساوس سے توبہ کریں اور ایسے عمل سے بالکلیہ اجتناب (پرہیز) کریں، اس قسم کے خیالات دل سے بالکل نکال دیں، ایک مسلمان کو جیسے بھی حالات آئیں اس پر صبر کرنا چاہیے اور اللہ سے اس کے ختم ہونے کی دعا کرنی چاہیے۔ نماز اور قرآن پڑھنا باعث اجر وثواب ہے، لیکن اس کے ساتھ بیوی کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ مشکاة شریف: ۲۸۲ میں ہے عن عائشة قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن من أکمل الموٴمنین إیمانا أحسنہم خلقًا وألطفہم بأہلہ․ کامل ایمان والا مسلمان وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور اپنے اہل سے سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہو۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہو۔ (مشکاة: ۲۸۲) ان احادیث سے عورت کے حقوق کا پتہ چلتا ہے، ان کے حقوق کی پاس داری مسلمان شوہر کے لیے ضروی ہے، یہ بات درست نہیں کہ ”عورت کی بات نہیں سننی چاہیے“، صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ علیہ الصلاة والسلام نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مشورے پر عمل کیا تھا، لہٰذا عورتوں کی بات بھی سننی چاہیے اور گھریلو امور میں ان سے مشورہ بھی کرنا چاہیے، گھر میں بچوں اور بیوی کے ساتھ پیار ومحبت سے رہنا چاہیے، ڈرا دھمکاکر خوف زدہ کرکے نہیں رکھنا چاہیے۔ آپ اپنے شوہر سے معافی مانگ لیں، اگرچہ غلطی آپ کی نہ ہو اور تعاون کے ساتھ رہیں، اور اللہ سے دعا کرتی رہیں، ان شاء اللہ سب حالات درست ہوجائیں گے، بچوں اور شوہر کے کام کو اپنا فرض سمجھ کر کریں، اپنے کو نوکرانی نہ سمجھیں، عورت پر شوہر کے بہت سارے حقوق ہیں، یہاں تک کہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر میں کسی کو کسی کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے“ (مشکاة) اس حدیث سے بھی شوہر کے حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کے شوہر کو طلاق سے بچنا چاہیے؛ کیوں کہ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز اللہ کے یہاں طلاق ہے، اس لیے وہ طلاق کا ارادہ نہ کریں اور نہ ہی آپ اس کا خیال لائیں، اور پیار ومحبت سے زندگی گذاریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند