• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 2387

    عنوان:

    مہر کے سلسلے میں کچھ رہ نمائی فرمائیں۔

    سوال:

    مہر کے سلسلے میں کچھ رہ نمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 2387

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوی: 877/877=ج)

     

    نکاح میں عورت کو شوہر کی طرف سے جو مال دیا جاتا ہے وہ مہر کہلاتا ہے، اس کی کم سے کم مقدار دس درہم (تیس گرام اور چھ سو اٹھارہ ملی گرام) چاندی یا اس کی قیمت ہے، مہر اس سے کم نہیں ہوتا ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں، لیکن آدمی کو اتنا مہر مقرر کرنا چاہیے، جس کو وہ آسانی سے ادا کرسکے، اتنا زیادہ مہر مقرر کرلینا جس کو وہ ادا نہ کرسکے ناجائز اور گناہ ہے اور صاحب وسعت کے لیے مہر فاطمی (پانچ سو درہم یعنی ڈیڑھ کلو، تیس گرام اور نو سو ملی گرام چاندی) یا اس کس قیمت پر نکاح کرنا بہتر ہے، اورمہر اگر معجل ہے تو عورت اس کی وصولیابی سے پہلے رخصتی سے انکار کرسکتی ہے اور اگر موٴجل (ادھار) ہے تو مدت سے پہلے اس کا مطالبہ کرنا یا رخصتی سے انکار کرنا جائز نہیں، اور اگر ادھار کی کوئی مدت متعین نہیں کی گئی ہے تو طلاق کے بعد اور شوہر یا عورت کے انتقال کے بعد اس کی ادائیگی لازم ہوگی، اس سے پہلے عورت اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی، شوہر اپنی خوشی و مرضی سے اگر دیدے تو الگ بات ہے۔ آپ مزید تفصیل کے لیے بہشتی زیور حصہ چہارم میں مہر کا بیان دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند