• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 2385

    عنوان:

    یہ طریقہٴ نکاح عام ہوتا جارہا ہے کہ عورت اپنے حق مہر، نفقہ و سکنی وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے اور اپنے یا اپنے والدین کے گھر رہتی ہے۔ كیا یہ صحیح ہے؟

    سوال:

    میرا ایک دوست جدہ میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ خلیجی ممالک میں ایک نکاح رائج ہے جس کا نام ہے: نکاح مسیار۔ یہ طریقہٴ نکاح عام ہوتا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عورت اپنے حق مہر، نفقہ و سکنی وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے جب کہ شریعت کے دیگر اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے۔ بیوی اپنے یا اپنے والدین کے گھر رہتی ہے۔ شوہر متعینہ ایام میں یا اپنی سہولت کے مطابق کسی دن اس سے جاکر ملتا ہے اور رات گزار کر واپس آجاتا ہے۔ سعودی عرب اور مصر کے علماء نے ایسی شادی کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر تلاش کیا اور معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ذاتی طور پر نکاح کا یہ طریقہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اسی لیے میرے ذہن میں آیا کہ اس سلسلے میں آپ کی رائے عالی معلوم کروں۔ میں آپ کے جواب کے لیے بے حد شکر گزار ہوں گا۔  والسلام

    جواب نمبر: 2385

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوی: 470/460=د)

     

    اگر شرعی طریقہ پر کم ازکم دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول ہوتا ہے اور مانعِ نکاح کوئی سبب نہ ہوتا ہو نکاح کے وقت کسی مدت کی تحدید نہیں کی جاتی مثلاً ۲/ سال کے لیے نکاح کررہے ہیں بلکہ مطلق طور پر نکاح کیا تو ایسا نکاح درست و صحیح ہے۔ البتہ مہر سے دست بردار ہونے کی بات درست نہیں ہے، دست بردار ہونے کے باوجود شوہر پر کم ازکم دس درہم ہیں جو دینا واجب ہوگا بحق شرع۔ ہاں اگر نکاح ہوجانے کے بعد پھر مہر کو معاف کردے اس سے دست بردار ہوجائے تو درست ہے۔اس طرح نکاح کرنے سے دونوں شرعی طور پر ایک دوسرے کے شوہر و بیوی ہوگئے، ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز اور درست ہے۔ سعودی عرب اور مصر کے علماء کے فتویٰ منسلک کرکے سوال کرنا چاہیے تھا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند