• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 22478

    عنوان: کیا نکاح کے لئے ولی یعنی ماں ، باپ، بھائی ، بہن مطلب اپنے خونی رشتہ دار کا نکاح کے وقت موجودرہنا لازمی / ضروری ہے؟ کیا آج کل عدالت کے ذریعہ جونکاح کیا جاتا ہے ، اس دوران مولانا / یا قاری صاحب ہوتے ہیں اور کچھ انجان لوگ بھی یعنی وکیل ، تو کیا ایسی صورت میں نکاح ہوگا یا نہیں؟جب کہ اس صورت میں لڑکے اور لڑکی کے گھر والوں کو نکاح کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہوتا ہے ۔ کیا نکاح فون کے ذریعہ اس طرح سے نکاح ہوسکتاہے ؟ جب کہ لڑکا دوسرے ملک میں ہو اور لڑکی ہندوستان میں ہو اور عدالت کے وکیل ، مولانا صاحب اور گواہوں کی موجودگی میں (جو کہ خونی رشتہ دار نہیں )نکاح ہوہورہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا لڑکے کے پاس بھی ایجاب و قبول ہوگا یا صرف لڑکی کے پاس ہی؟ جب کہ لڑکا نکاح کے وقت خودبظاہر موجود نہیں ہوگا ، صرف فون یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی مخاطب ہوگا ؟ لڑکے اور لڑکی طرف سے کتنے کتنے گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ براہ کرم، ہماری رہنمافرمائیں۔

    سوال: کیا نکاح کے لئے ولی یعنی ماں ، باپ، بھائی ، بہن مطلب اپنے خونی رشتہ دار کا نکاح کے وقت موجودرہنا لازمی / ضروری ہے؟ کیا آج کل عدالت کے ذریعہ جونکاح کیا جاتا ہے ، اس دوران مولانا / یا قاری صاحب ہوتے ہیں اور کچھ انجان لوگ بھی یعنی وکیل ، تو کیا ایسی صورت میں نکاح ہوگا یا نہیں؟جب کہ اس صورت میں لڑکے اور لڑکی کے گھر والوں کو نکاح کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہوتا ہے ۔ کیا نکاح فون کے ذریعہ اس طرح سے نکاح ہوسکتاہے ؟ جب کہ لڑکا دوسرے ملک میں ہو اور لڑکی ہندوستان میں ہو اور عدالت کے وکیل ، مولانا صاحب اور گواہوں کی موجودگی میں (جو کہ خونی رشتہ دار نہیں )نکاح ہوہورہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا لڑکے کے پاس بھی ایجاب و قبول ہوگا یا صرف لڑکی کے پاس ہی؟ جب کہ لڑکا نکاح کے وقت خودبظاہر موجود نہیں ہوگا ، صرف فون یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی مخاطب ہوگا ؟ لڑکے اور لڑکی طرف سے کتنے کتنے گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ براہ کرم، ہماری رہنمافرمائیں۔

    جواب نمبر: 22478

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):886=705-6/1431

    (۱) نکاح کے وقت خونی رشتہ داروں کا موجود رہنا ضروری نہیں، عدالت کے ذریعہ کیے جانے والے نکاح میں دو شرعی مسلمان گواہوں کا ہونا ضروری ہے، جن کے سامنے ایجاب وقبول ہو، دونوں نے ایک ساتھ اپنے کانوں سے ایجاب وقبول کو سنا ہو تو نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن گھر والوں کے علم میں لائے بغیر نکاح کرنا ناپسندیدہ ہے۔
    (۲) اگر لڑکا فون وغیرہ کے ذریعہ ایجاب یا قبول کا وکیل بنادے اور وہ وکیل مذکورہ بالا طریقہ پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں قبول کرے اور دوسری جانب لڑکی یا اس کا وکیل لڑکی کی طرف سے ایجاب کرے تو اس طرح نکاح منعقد ہوجائے گا، لڑکے کا بذاتِ خود فون وغیرہ کے ذریعہ مجلس نکاح سے غیرحاضری کی صورت میں قبول کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
    (۳) صرف لڑکی کے پاس ہی ایجاب قبول ہوجانا کافی ہے، دونوں کے پاس ایجاب وقبول کا ہونا ضروری نہیں۔
    (۴) صرف مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کے وقت دو شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے، لڑکے یا لڑکی کی طرف سے الگ الگ گواہوں کا ہونا ضروری نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند