• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 21292

    عنوان:

    آج سے پندرہ برس قبل غالباً 1994میں میرے تایہ زاد بھائی نے ہماری دور کی رشتہ دار کو قتل کیا تھا۔ صلح میں شرط یہ قرار پائی کہ میری تایہ زاد بہن یعنی قاتل کی بہن کا نکاح مقتول کے بیٹے سے ہوگا۔ اور مسجد میں بھرے مجمع میں نکاح ہوا، کہ فلاں کی بیٹی فلاں کے بیٹے کے ساتھ اس کا نکاح ہوا، اب وہ تو چھوٹی تھی اسے ان باتوں کا کیا پتہ، اس وقت میری تایہ زاد بہن کی عمر لگ بھگ نو یا دسال کی تھی یعنی بلوغ میں نہیں پہنچی تھی۔ آج جب کہ اس کی عمر پچیس برس کی ہے اور اپنا اچھا برا خود سمجھتی ہے وہ رخصتی سے انکار کررہی ہے، جب کہ جس کے ساتھ نکاح ہوا تھا ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ انکار کرے گی تو میں طلاق نہیں دوں گا اور یوں ہی زندگی بسر کرے گی تاکہ کسی او رکے ساتھ بھی نکاح نہ ہوسکے، یہ ان کا فیصلہ ضد پر ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ نو دس سال کی عمر میں نکاح اب معتبر ہے یا نہیں اور کن صورتوں میں معتبر ہوگا، اور اس لڑکے کا یہ کہنا کہ میں طلاق نہیں دوں گا یہ بات کہا ں تک ٹھیک ہے، اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ بہت الجھا ہوا ہے سارا خاندان، برائے کرم ذ را توجہ فرمادیجیے، مجھے اشد انتظار رہے گا آ پ کے جواب کا۔

    سوال:

    آج سے پندرہ برس قبل غالباً 1994میں میرے تایہ زاد بھائی نے ہماری دور کی رشتہ دار کو قتل کیا تھا۔ صلح میں شرط یہ قرار پائی کہ میری تایہ زاد بہن یعنی قاتل کی بہن کا نکاح مقتول کے بیٹے سے ہوگا۔ اور مسجد میں بھرے مجمع میں نکاح ہوا، کہ فلاں کی بیٹی فلاں کے بیٹے کے ساتھ اس کا نکاح ہوا، اب وہ تو چھوٹی تھی اسے ان باتوں کا کیا پتہ، اس وقت میری تایہ زاد بہن کی عمر لگ بھگ نو یا دسال کی تھی یعنی بلوغ میں نہیں پہنچی تھی۔ آج جب کہ اس کی عمر پچیس برس کی ہے اور اپنا اچھا برا خود سمجھتی ہے وہ رخصتی سے انکار کررہی ہے، جب کہ جس کے ساتھ نکاح ہوا تھا ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ انکار کرے گی تو میں طلاق نہیں دوں گا اور یوں ہی زندگی بسر کرے گی تاکہ کسی او رکے ساتھ بھی نکاح نہ ہوسکے، یہ ان کا فیصلہ ضد پر ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ نو دس سال کی عمر میں نکاح اب معتبر ہے یا نہیں اور کن صورتوں میں معتبر ہوگا، اور اس لڑکے کا یہ کہنا کہ میں طلاق نہیں دوں گا یہ بات کہا ں تک ٹھیک ہے، اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ بہت الجھا ہوا ہے سارا خاندان، برائے کرم ذ را توجہ فرمادیجیے، مجھے اشد انتظار رہے گا آ پ کے جواب کا۔

    جواب نمبر: 21292

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 691=230tl-5/1431

     

    اگر آپ کی تایا زاد بہن کا نکاح حالت نابالغی میں ان کے والدین نے باقاعدہ طور پر گواہوں کی موجودگی میں کیا تھا تو نکاح منعقد ہوگیا تھا اور بالغہ ہوجانے کے بعد آپ کی تایازاد بہن کو کوئی اختیار فسخِ نکاح کا نہیں رہا اور اگر اُن کے والدین نے نہیں کیا تھا بلکہ دیگر اولیاء نے کیا تھا تو بھی نکاح منعقد ہوگیا، البتہ اس صورت میں اس کو اختیار تھا کہ وہ بالغہ ہوتے ہی فوراً نکاح فسخ کردیتی لیکن جب اس نے بالغہ ہونے کے فوراً بعد نکاح فسخ نہیں کیا تو اب نکاح منعقد ہوگیا، اب اس شوہر کے پاس اگر آپ کی تایازاد بہن جانے کو تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق لی جائے یا مال کا لالچ دے کر خلع کرادیا جائے اور اگر وہ اس پر بھی تیار نہ ہو تو اس مسئلہ کو قریب کے کسی شرعی پنچایت یا دارالقضاء میں لیجاکر حل کرایا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند