• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 17193

    عنوان:

    میری شادی ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا۔ شادی کے لیے میں راضی نہیں تھا لیکن والدین کے بار بار کہنے اور ضد کرنے پر میں نے شادی کے لیے ہاں کردیا۔ شادی سے پہلے میں نے لڑکی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن والد صاحب اتنا زیادہ غصہ ہوگئے کہ لڑکی دیکھنے کو منع کردیا اور خود ہی جاکر لڑکی کو پسند کرلیا۔ اب شادی کے بعد لڑکی مجھے بالکل پسند نہیں ہے میں نے آج تک جانا ہی نہیں کہ شادی کی خوشی کیا ہوتی ہے۔ میں ادھر ادھر مارا مارا بھاگتا ہوں کہ بیوی کے ساتھ نہ رہنا پڑے اسی بھاگ دوڑ میں میں آج دبئی میں ہوں اور بیوی سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا کیوں کہ اس کے پاس ہوتے ہوئے میرا دل گھبراتا ہے اور مجھے بہت گراں گزرتا ہے۔ میں کسی طرح سے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے خود کو راضی نہیں کر پارہا ہوں جب کہ گھر والوں اور والدین کو لڑکی بہت پسند ہے اور وہ کہتے ہیں کہ طلاق مت دینا جب کہ میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ لیکن اگرطلاق دیتا ہوں تو والدین کو تکلیف ...

    سوال:

    میری شادی ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا۔ شادی کے لیے میں راضی نہیں تھا لیکن والدین کے بار بار کہنے اور ضد کرنے پر میں نے شادی کے لیے ہاں کردیا۔ شادی سے پہلے میں نے لڑکی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن والد صاحب اتنا زیادہ غصہ ہوگئے کہ لڑکی دیکھنے کو منع کردیا اور خود ہی جاکر لڑکی کو پسند کرلیا۔ اب شادی کے بعد لڑکی مجھے بالکل پسند نہیں ہے میں نے آج تک جانا ہی نہیں کہ شادی کی خوشی کیا ہوتی ہے۔ میں ادھر ادھر مارا مارا بھاگتا ہوں کہ بیوی کے ساتھ نہ رہنا پڑے اسی بھاگ دوڑ میں میں آج دبئی میں ہوں اور بیوی سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا کیوں کہ اس کے پاس ہوتے ہوئے میرا دل گھبراتا ہے اور مجھے بہت گراں گزرتا ہے۔ میں کسی طرح سے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے خود کو راضی نہیں کر پارہا ہوں جب کہ گھر والوں اور والدین کو لڑکی بہت پسند ہے اور وہ کہتے ہیں کہ طلاق مت دینا جب کہ میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ لیکن اگرطلاق دیتا ہوں تو والدین کو تکلیف او راگر طلاق نہیں دیتا ہوں تو میری زندگی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ کیا کروں برائے کرم کوئی حل بتائیں؟ کیا اگر میں اس کو طلاق دوں تو شریعت کا کیا قاعدہ ہے جائز یا ناجائز؟ میں نے کئی بار کوشش کی اس کے ساتھ رہنے کی لیکن اس کے ساتھ دل بالکل نہیں لگتا ، اس ایک سال میں میں نے اس کے ساتھ صرف تین یا چار مہینے گزارے ہوں گے اور ان دنوں میں بھی میں اس کے پاس سو کر بھی اس سے الگ رہتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں ہمیشہ ٹینشن میں رہتا ہوں اور اسی وجہ سے میری صحت بھی ڈاؤن ہوتی جارہی ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ طلاق دے دوگے تو ہم سے رشتہ مت رکھنا والدین بھی دھمکی دیتے ہیں۔ جب کہ میں ایک ذمہ دار آدمی ہوں اور گھر کا سارا خرچ میں ہی اٹھاتا ہوں۔ ایسی حالت میں شریعت کی طرف سے مجھے طلاق دینے کی اجازت ہے کہ نہیں؟ اور کیا طلاق کی وجہ سے میرے اوپر کوئی سزا بھی شریعت کی طرف سے ہے؟ اللہ کے واسطے جلد جواب سے نوازیں۔

    جواب نمبر: 17193

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):2281=1833-12/1430

     

    بہتر تو یہی تھا کہ کوئی سبیل نباہ کی نکال لیتے خواہ طبیعت پر کچھ جبر ہی کرنا پڑے تاہم اگر اس کی اب کوئی امید نہ رہی ہو تو ایک طلاق رجعی دیدیں، ایک سے زائد ہرگز نہ دیں، بعد عدت مطلقہ کو حق ہوجائیگا کہ وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرلے گی، اگر عقد ثانی سے قبل آپ کی طبیعت میں اس کی طرف میلان ہوجائے اور وہ بھی راضی ہو تو عدت میں مراجعت اور بعد (عدت) نکاح جدید بغیر حلالہ اس کو لوٹا لینے کا حق آپ کو ہوجائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند