معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 171257
جواب نمبر: 171257
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1167-135T/L=10/1440
(۱) صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکی لڑکے کو اپنے نکاح کا وکیل بنادے اور وہ شخص دوگواہوں کی موجودگی میں اس لڑکی سے نکاح کرلے تو نکاح درست ہوجائے گا اور دونوں میاں بیوی ہوجائیں گے ؛البتہ چونکہ احادیث میں علانیہ نکاح کرنے کا حکم ہے اور خفیہ نکاح میں دیگر مفاسد بھی ہیں اس لیے بہتر ہے کہ اول مرتبہ ہی باضابطہ علانیہ طور پر نکاح کیا جائے ۔
(۳،۲)صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح اول کے بعد دوبارہ کسی مصلحت سے نکاح کیا جائے تو ضروتاً ایسا کرسکتے ہیں اور اگر اس میں گواہ بدل جائیں تو بھی مضائقہ نہیں ،اس صورت میں نکاح ثانی لغو مانا جائے گا؛البتہ نکاح ثانی میں اگرمہر پہلے سے زیادہ مقرر کیا جائے تو وہ زیادتی بھی لازم ہوگی الاّ یہ کہ نکاحِ ثانی اور مہرِ ثانی کے ہزل ومذاق ہونے پر گواہ موجود ہوں تو پھر زیادتی لازم نہ ہوگی ۔
جدد النکاح بزیادة ألف لزمہ ألفان علی الظاہر․ قال الشامی: حاصل عبارة الکافی: تزوجہا فی السر بألف ثم فی العلانیة بألفین ظاہر المنصوص فی الأصل أنہ یلزم الألفان ویکون زیادة فی المہر․․․ وعند الإمام أن الثانی وإن لغا لا یلغو ما فیہ من الزیادة ․․․ وذکر فی الفتح أن ہذا إذا لم یشہدا علی أن الثانی ہزل وإلا فلا خلاف فی اعتبار الأول، فلو ادعی الہزل لم یقبل بلا بینة․(الدرالمختار مع رد المحتار: 4/ ۲6۷کتاب النکاح، مطلب: فی أحکام المتعة ط: زکریا)
(4)نکاح کے وقت عاقدین یا ان کے وکیل میں سے کسی ایک کا مجلس نکاح میں رہناضروری ہے ،اگر عاقدین یا ان کے وکیل میں سے کوئی مجلسِ نکاح میں نہیں رہتا تو یہ فضولی کا نکاح ہوجاتا ہے اور لڑکا یا لڑکی جس کی عدمِ موجودگی میں نکاح ہوا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہوگا ،اگر وہ اجازت دیدیتا ہے تو نکاح درست ہوجائے گا ورنہ لغو ہوجائے گا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند