• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 16949

    عنوان:

    میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ نکاح کے وقت دلہن کواس کے شوہر، اس کے سسر، اس کی ساس اور اس کی سسرال اور کچھ رشتہ داروں کی طرف سے کچھ پراپرٹی دی گئی تھی۔یہ چیزیں زیورات، مصنوعی زیورات، کپڑے، نقدی وغیرہ تھیں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ (۱)طلاق کے بعد ان چیزوں کا اصل مالک کون ہے جو کہ اس کو نکاح کے وقت اس کی سسرال کی طرف سے دی گئی تھی؟(۲)کیا طلاق کے بعد پراپرٹی کا حق تبدیل ہوجائے گا؟(۳)کیا(section 3 (d) of muslim woman protection on divorced act) مسلم ویمن پروٹیکشن آن ڈورسڈ ایکٹ کا سیکشن ۳ (D) ہماری شریعت کے مطابق ہے؟برائے کرم مجھ کو فتوی جاری فرماویں۔نسیم اختر ایڈوکیٹ ابن عبدالواجد، اسالت پورہ پلیا، مرادآباد۔

    سوال:

    میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ نکاح کے وقت دلہن کواس کے شوہر، اس کے سسر، اس کی ساس اور اس کی سسرال اور کچھ رشتہ داروں کی طرف سے کچھ پراپرٹی دی گئی تھی۔یہ چیزیں زیورات، مصنوعی زیورات، کپڑے، نقدی وغیرہ تھیں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ (۱)طلاق کے بعد ان چیزوں کا اصل مالک کون ہے جو کہ اس کو نکاح کے وقت اس کی سسرال کی طرف سے دی گئی تھی؟(۲)کیا طلاق کے بعد پراپرٹی کا حق تبدیل ہوجائے گا؟(۳)کیا(section 3 (d) of muslim woman protection on divorced act) مسلم ویمن پروٹیکشن آن ڈورسڈ ایکٹ کا سیکشن ۳ (D) ہماری شریعت کے مطابق ہے؟برائے کرم مجھ کو فتوی جاری فرماویں۔نسیم اختر ایڈوکیٹ ابن عبدالواجد، اسالت پورہ پلیا، مرادآباد۔

    جواب نمبر: 16949

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):2137=331k-12/1430

     

    (۱) لڑکی (دلہن) کو اس کے سسرال والوں کی طرف سے جو زیورات کپڑے، نقد وغیرہ ملتے ہیں، انھیں دلہن کی ملکیت ثابت ہونے کا تعلق عرف سے ہے، اگر اس علاقہ میں مالک بناکر دیدینے کا رواج ہے تو دلہن مالک ہوجائے گی، اور طلاق کے بعد بھی اس کی ملکیت برقرار رہے گی اور اگر مالک بناکر دینے کا رواج نہیں ہے بلکہ صرف پہننے کے لیے دینے کا رواج ہے جیسا کہ بعض علاقوں میں زیورات کی بابت یہی رواج ہے تو اس صورت میں دلہن اس کی مالک نہیں قرار پائے گی، بلکہ دلہن کے مطلقہ یا متوفیہ ہونے کی صورت میں دلہن کا شوہریا سسر مالک ہوگا۔

    (۲) طلاق کے بعد کوئی حق تبدیل نہیں ہوتا، اگرطلاق سے قبل لڑکی پورے طور پر مالک ہے تو بعد طلاق بھی مالک رہے گی۔

    (۳) مسلم ویمن پروٹیکشن آن ڈِورسڈ ایکٹ کا سیکشن نمبر ۳ کا پورا متن مع اردو ترجمہ ارسال کریں اور فتویٰ ہذا بھی ہمراہ منسلک کردیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند