• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 16698

    عنوان:

    عرض ہے جواب جلد عنایت فرمائیں چوں کہ مسئلہ کی نوعیت بہت نازک ہے اور معاملہ کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے اس کے لیے آپ سے عرض ہے کہ جواب میں جلدی فرمالیں گے تو سہولت ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ایک صاحب کا نکاح تقریباً پانچ سال پہلے ایک لڑکی سے کیا گیا جس میں اہل محلہ کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر تقریبا 26 سال جبکہ لڑکی کی عمر تقریبا 18 سال تھی۔ نکاح کے بعد رخصتی نہ ہوسکی جس کی وجہ مالی پریشانی اور مختلف اداروں میں بِل کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے مکان کی تعمیر میں تاخیر تھی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یعنی 27جون 2009ء کو لڑکی اپنے گھر سے نکل کر کسی اور شخص کے ساتھ چلی گئی اور وہاں جاکر انہوں نے نکاح کرلیا، اور نکاح کرتے وقت انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ چوں کہ پہلے نکاح کو تین سال گزرچکے ہیں لہٰذا اب وہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور انہوں نے دوبارہ نکاح کردیا ہے....

    سوال:

    حترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم! اُمید ہے کہ مزاج گرامی بخیروعافیت ہوں گے۔ عرض ہے جواب جلد عنایت فرمائیں چوں کہ مسئلہ کی نوعیت بہت نازک ہے اور معاملہ کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے اس کے لیے آپ سے عرض ہے کہ جواب میں جلدی فرمالیں گے تو سہولت ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ایک صاحب کا نکاح تقریباً پانچ سال پہلے ایک لڑکی سے کیا گیا جس میں اہل محلہ کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر تقریبا 26 سال جبکہ لڑکی کی عمر تقریبا 18 سال تھی۔ نکاح کے بعد رخصتی نہ ہوسکی جس کی وجہ مالی پریشانی اور مختلف اداروں میں بِل کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے مکان کی تعمیر میں تاخیر تھی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یعنی 27جون 2009ء کو لڑکی اپنے گھر سے نکل کر کسی اور شخص کے ساتھ چلی گئی اور وہاں جاکر انہوں نے نکاح کرلیا، اور نکاح کرتے وقت انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ چوں کہ پہلے نکاح کو تین سال گزرچکے ہیں لہٰذا اب وہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور انہوں نے دوبارہ نکاح کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں شریعت مطہرہ کیا حکم دیتا ہے۔ ۱) کیا لڑکی کا اس طرح ایک نکاح کے قائم ہونے کے باوجود دوسرا نکاح کرنا کیسا ہے؟؟ نیز پیدا ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہوگا۔ ۲) ایک نکاح کے بعد رخصتی نہ ہونے کے بعد کب تک وہ نکاح قائم رہ سکتا ہے جبکہ لڑکے کی طرف سے طلاق وغیرہ کا معاملہ نہ ہوا ہو، نیز کیا عدالت سے خلع کی صورت میں جبکہ لڑکا بیوی کو آزاد نہ کرے، یکطرفہ طور پر عدالت خلع کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟ ۳) اس طرح کا نکاح منعقد کرنا کہ پہلے نکاح ہوچکا ہو اور اس پر دوسرا نکاح کرنے والوں کے متعلق کیا حکم ہے جو اس کو صحیح تسلیم اور اس میں شرکت کریں۔ ۴) اس صورت میں جبکہ رخصتی نہ ہوئی ہو، طلاق کی نوبت آنے پر مہر کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہوگاَ؟؟ ازراہِ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں مفصل جواب جلد ازجلد تحریر فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے ، علم وعمل میں برکت اور دین کی خدمت کو قبول فرمائے۔

    جواب نمبر: 16698

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):1707=365tl-11/1430

     

    (۱) نکاح ہوجانے کے بعد جب تک شوہر طلاق نہ دیدے اس وقت تک اس کا دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا،نکاح کرنا حرام ہے، قال تعالی: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ ․․․ الآیة اس لیے نکاح کے قائم رہتے ہوئے لڑکی نے جو نکاح کیا وہ صحیح نہیں ہوا، اور جتنی بار اس سے شوہر نے صحبت کی ہوگی وہ سب زنا ہوئے اس لیے ان دونوں پر فوراً علاحدگی اور توبہ واستغفار لازم ہے، جہاں پیدا ہونے والی اولاد کا تعلق ہے تو وہ اولاد شوہر اول کی کہلائے گی لقولہ علیہ السلام: الولد للفراش وللعاہر الحجر۔

    (۲) نکاح کے بعد جب تک شوہر طلاق یا خلع نہ کرلے اس وقت تک ان دونوں کا نکاح قائم رہے گا، نیز خلع کے لیے زوجین کی رضامندی ضروری ہے، بغیر شوہر کی رضامندی کے خلع نہیں ہوسکتا۔

    (۳) پہلا نکاح ہوجانے کے بعد طلاق کے بغیر دوسرا نکاح کرنے والے، اس کو صحیح تسلیم کرنے والے اور اس میں شرکت کرنے والے سب گنہ گار ہیں، ان پر توبہ و استغفار ضروری ہے، ہاں! جو لوگ پہلا نکاح جانے بغیر اس میں شریک ہوئے ہوں گے وہ شرعاً گنہ گار نہیں ہیں۔

    (۴) اگر رخصتی سے قبل طلاق کی نوبت آجاتی ہے تو شوہر پر نصف مہر ادا کرنا ضروری ہوگا، شوہر کسی طرح وہ رقم اپنی مطلقہ بیوی تک پہنچادے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند