معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 165665
جواب نمبر: 165665
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:119-118/L=2/1440
اصل تو مہر وہ ہے جس پر عاقدین راضی ہوجائیں ،مہرِ مثل کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جبکہ مہر متعین نہ ہواور نہ ہی زوجین بعد میں کسی رقم پر راضی ہوئے ہوں اور زوجین میں صحبت یا خلوتِ صحیحہ کی نوبت آگئی ہو ،مہر مثل کا حاصل یہ ہے کہ اس لڑکی کو وہی مہر ملے گا جو اس کے والد کے خاندان مثلاً: بہنوں،پھوپھیوں ،چچازاد بہنوں جو اس کے عمر اور حسن وجمال میں اس لڑکی کے ہم پلہ ہوں ان کا جو مہر ہو گا وہی اس کا ہوگا،اور اگر اس کے خاندان سے کوئی نہ ہو تو اسی کے مثل دوسری خاندان کی عورتوں کے مہر کا اعتبار ہوگا ،اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زوجین جس پر راضی ہوجائیں وہی مہر مقرر ہوجائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند