معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 16214
ایک
لڑکی کا چھ سال کی عمر میں اس کے والد نے نکاح کردیاتھا۔ اب بالغ ہونے کے بعد لڑکی
کی مرضی سے اس کے والد نے نکاح توڑ کر دوسری جگہ اس لڑکی کا نکاح اور رخصتی کردی
پہلے شوہر کو بتائے بغیر۔ جب پہلے والے شوہر کو اس کی شادی کا پتہ چلا تو اس نے
اعتراض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیاتھا آپ اس کا دوسری جگہ نکاح نہیں
کرسکتے۔ بالآخر وہ چپ ہوکر بیٹھ گیا،کیوں کہ دونوں خاندانوں کی آپس میں لڑائیاں
ہوگئی تھیں اس وجہ سے یہ نکاح توڑنا پڑا۔ (۱)کیا دوسرا نکاح نافذ ہوگیا ہے، اگر
نہیں ،تو کیوں؟ (۲)اگر
بالغ ہوکر بھی طلاق ہی کے ذریعہ نکاح ختم کرنا ہوتا ہے تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے
کہ بچپن میں کیا ہوا نکاح جب بچے بالغ ہوجائیں تو اپنی مرضی سے ختم کرسکتے ہیں؟
ایک
لڑکی کا چھ سال کی عمر میں اس کے والد نے نکاح کردیاتھا۔ اب بالغ ہونے کے بعد لڑکی
کی مرضی سے اس کے والد نے نکاح توڑ کر دوسری جگہ اس لڑکی کا نکاح اور رخصتی کردی
پہلے شوہر کو بتائے بغیر۔ جب پہلے والے شوہر کو اس کی شادی کا پتہ چلا تو اس نے
اعتراض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیاتھا آپ اس کا دوسری جگہ نکاح نہیں
کرسکتے۔ بالآخر وہ چپ ہوکر بیٹھ گیا،کیوں کہ دونوں خاندانوں کی آپس میں لڑائیاں
ہوگئی تھیں اس وجہ سے یہ نکاح توڑنا پڑا۔ (۱)کیا دوسرا نکاح نافذ ہوگیا ہے، اگر
نہیں ،تو کیوں؟ (۲)اگر
بالغ ہوکر بھی طلاق ہی کے ذریعہ نکاح ختم کرنا ہوتا ہے تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے
کہ بچپن میں کیا ہوا نکاح جب بچے بالغ ہوجائیں تو اپنی مرضی سے ختم کرسکتے ہیں؟
جواب نمبر: 16214
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د):1801=273k-10/1430
(۱) نابالغہ لڑکی کے والد نے خود ایجاب وقبول دو گواہوں کی موجودگی میں کرکے شرعی طور پر اس کا نکاح کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد اس نکاح کو فسخ نہیں کیا جاسکتا۔ نہ لڑکی فسخ کرسکتی ہے، نہ اس کا باپ، یہ نکاح اب لازم ہوگیا، لہٰذا باپ نے دوسری جگہ جو نکاح کیا ہے وہ منعقد نہیں ہوا، اور دوسرے شوہر کے ساتھ لڑکی کا رہنا حرام کاری ہوگا۔
(۲ یہ کس نے کہا ہے یا کہاں لکھا ہے کہ بچپن میں کیا ہوا نکاح جب بچے بالغ ہوجائیں تو اپنی مرضی سے ختم کرسکتے ہیں؟ پورے حوالہ کے ساتھ لکھئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند