• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 161093

    عنوان: بغیر گواہوں کے نکاح کا حکم؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ پر کہ زید نے ایک لڑکی سے نکاح کیا چپکے سے ایک کمرے میں لوگوں سے چھپ کر۔ کمرہ میں صرف چار لوگ تھے: ایک لڑکا ایک لڑکی اور اس لڑکی کے ماں باپ۔ لڑکی کے باپ سے کہا کہ آپ ہمارا نکاح پڑھائیں، انہوں نے ایک پیپر پر لکھے ہوئے لفظوں میں ایجاب و قبول کروا دیا، اور گواہ لڑکی کا باپ اور لڑکی کی ماں بن گئے، اور اس بات کو ۱۰/ سال ہو گئے ہیں ابھی تک نکاح کا اعلان نہیں کیا ہے مگر دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں اور میاں بیوی والا رشتہ رکھتے ہیں، تو کیا اس طرح سے نکاح ہو جائے گا؟ اگر نہیں! تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ زید کا کہنا ہے گواہی تو سنت ہے، اور سنت ترک کی جاسکتی ہے۔ نکاح تو صرف لڑکا لڑکی اکیلے بھی کر سکتے ہیں۔ براہ کرم، تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 161093

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1065-933/L=8/1439

    نکاح کے صحیح ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں کم ازکم دومسلمان مردیاایک مرد اور دو عورتوں کا موجودرہنا ضروری ہے ،یہ صرف سنت نہیں ہے ؛اس لیے زید اور اس لڑکی کو چاہیے کہ فوراً دونوں علیحدگی اختیار کرلیں اور شوہر متارکت کے الفاظ مثلاً:میں نے تجھے چھوڑدیا ،تیراراستہ صاف کردیا وغیرہ کے الفاظ کہدے ،اس کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ باضابطہ دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور سابقہ احوال پر صدق دل سے توبہ واستغفار کریں۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینة۔ (سنن الترمذي ۱/۲۱۰رقم: ۱۱۰۹)

    عن أبي الزبیر أن عمر رضي اللّٰہ عنہ أتی برجل في نکاح لم یشہد علیہ إلا رجل وامرأة، فقال عمر: ہٰذا نکاح السرّ ولا نجیزہ، ولو کنت تقدمت فیہ لرجمت۔ (رواہ محمد في المؤطا ۱/۲۴۱وہو مرسل صحیح)وذکر البیہقي عن الشافعي أنہ قال: ہو ثابت عن ابن عباس وغیرہ من الصحابة أي قولہ: لا نکاح إلا بشاہدین۔ (الجوہر النقی ۲/۷۹، إعلاء السنن ۱۱/۲۸بیروت)

    ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین الخ، أما اشتراط الشہادة فلقولہ علیہ السلام: لا نکاح إلا بشہود۔ (فتح القدیر / کتاب النکاح ۳/۱۹۹زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند