• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 159553

    عنوان: حقوق كی ادائیگی میں كوتاہی كا اندیشہ ہو تو دوسری شادی كرنا جائز نہیں؟

    سوال: امید ہے کہ آپ حضرات بخیر و عافیت ہوں گے ۔ عجیب کش مکش میں پھنسا ہوں ذہن بہت ہی منتشر ہے اس لئے آپ حضرات سے تسلی بخش جواب چاہتا ہوں بلکہ ایک صحیح راہ اور مشورہ چاہتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے اللہ نے تین سال پہلے ایک لڑکی عنایت فرمائی۔ تین سال کے وقفہ کے بعد ولادت میں دوسری اولاد بے جان پیدا ہوئی۔ اور معاملہ اتنا خراب ہو گیا کہ عورت کی جان کو خطرہ بتا کر ڈاکتروں نے بچہ دانی بھی نکال لی۔ ہماری اور ہماری اہلیہ کی عمر صرف ستائیس ۷۲/ سال ہے ابھی پوری زندگی باقی ہے بظاہر، کبھی مزید اولاد نہیں ہو سکتی۔ عورت کو اللہ جزائے خیر دے ، دونوں صدمے بڑی ہمت سے برداشت کر لی۔ اب آگے کے لئے ہم سوچ رہے ہیں کہ : 1۔ گھرانے میں کسی کا بچہ گود لے لیں۔ 2۔ کسی یتیم بچے کو گود لے لیں۔ 3۔ ایک لڑکی کو ہی صبر و شکر سے پال لیں، مزید اولاد کی فکر چھوڑ دیں۔ یہ تینوں تو ہم نے ساتھ میں سوچی ہیں ۔ مزید ایک بات میں سوچتا ہوں کہ اگر بچہ گود ہی لینا ہیے تو میں دوسرا نکاح کر لوں اور خود کے بچہ کی فخر کروں اہلیہ کو سمجھا بجھا کر۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمایں یا اور کوئی بہتر صورت بتائیں۔ خیرا۔

    جواب نمبر: 159553

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:748-604/sd=6/1439

     کسی یتیم بچے کو گود لے کر اس کی کفالت کر نا بہت ثواب کا باعث ہے اور رشتہ داروں میں سے کسی کا بچہ گود لینا بھی جائز ہے ؛ لیکن گود لینے کی وجہ سے اس پر حقیقی بیٹے کے احکام جاری نہیں ہوں گے اور دوسری شادی کرنے میں ضروری ہے کہ دونوں بیویوں کے حقوق عدل وانصاف کے ساتھ اداء کیے جائیں، اگر اس میں کوتاہی کا اندیشہ ہو، تو دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے اور ایک لڑکی پر اکتفا کرکے مزید اولاد کی فکر چھوڑدینے میں بھی شرعا مضائقہ نہیں، بس آپ اپنے حالات پر غور کر لیں اور جو صورت مناسب ہو، شرعی حدود کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو اختیار کرسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند