• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 155062

    عنوان: لڑکی نکاح کے لیے دوسال کا وقت مانگ رہی ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے

    سوال: حضرت، میں ۲۵/ سال کا ہوں، ممبئی میں رہتا ہوں۔ ایک سال پہلے میرا رشتہ میری خالہ کی لڑکی سے طے ہوا تھا، گھر والے شادی کا بھی بول رہے ہیں لیکن لڑکی مجھ سے کہہ رہی ہے کہ دو سال انتظار کرو، میں نے وجہ پوچھی تو وجہ نہیں بتا رہی ہے اور مجھے ذہنی مصیبت میں ڈالے ہوئے ہے، میں نے ہر طرح کی کوشش کر کے دیکھ لیا ہے لیکن وہ وجہ بتانا نہیں چاہتی، بولتی ہے کہ جتنا کہہ رہی ہوں اتنا کرو، پہلے ہم لوگ چیٹ کرتے (بذریعہ نیٹ گپ شپ کرنا) تھے لیکن اب کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اس رشتہ کی وجہ سے مجھ پر اثر بھی کیا گیا تھا جس کی وجہ سے میری نوکری بھی چلی گئی ہے۔ اب آپ ہی مجھے کوئی حل بتائیں کہ میں کیا کروں؟ میرے ہر کام پر نظر رکھتی ہے، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کو منع کرتی ہے یہاں تک کہ میرے واٹس ایپ اور فیس بک اکاوٴنٹ کی بھی تفصیلات رکھتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھے سامنے آکر صرف وجہ بتادے تاکہ میں کچھ کرسکوں، اس وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ آپ جلد از جلد مجھے اس کاحل بتائیں، مہربانی ہوگی۔ شکریہ

    جواب نمبر: 155062

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 51-37/N=1/1439

    محض رشتہ طے ہوجانے سے لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کے لیے میاں بیوی یا میاں بیوی کی طرح نہیں ہوجاتے ؛ بلکہ نکاح سے پہلے دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر اجنبی ہی رہتے ہیں؛ اس لیے آپ نے محض رشتہ کی وجہ سے خالہ زاد بہن سے جو بات چیت شروع کردی گئی ، یہ آپ نے غلط وناجائز کام کیا، آپ کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا ( فتاوی رحیمیہ ۸: ۱۵۱، سوال: ۱۹۰، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ، ۶: ۸۴، ۸۵، مطبوعہ: مکتبہ لدھیانوی، کراچی ) ، آپ کی ساری پریشانیوں کی بنیاد یہی ہے ، اب جب لڑکی سے آپ کا رابطہ ختم ہوگیا ہے، تو یہ اچھا ہوا، آپ ایک گناہ کے کام سے بچ گئے ، اب آپ اپنے ماں باپ کے ذریعے لڑکی والوں سے نکاح کی بابت تفصیلات معلوم کریں، یعنی: وہ کب تک نکاح کرنا چاہتے ہیں اور تاخیر کی وجہ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، انشاء اللہ لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے آپ کے سامنے صحیح تفصیلات آجائیں گی ۔

    وینعقد بإیجاب وقبول (تنویر الأبصار مع الدر والرد،کتاب النکاح ۴: ۶۸، ۶۹ط مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینعقد“: ……والحاصل:أن النکاح والبیع ونحوہما وإن کانت توجد حسا بالإیجاب والقبول، لکن وصفہا بکونہا عقوداً مخصوصة بأرکان وشرائط یترتب علیہا أحکام وتنتفی تلک العقود بانتفائہا وجود شرعي زائد علی الحسی الخ (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند