• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 154847

    عنوان: میری بہن كچھ موٹی ہے جو لوگ رشتے كے لیے آتے ہیں ناپسند كركے چلے جاتے ہیں؟

    سوال: حضرت، میں مہاراشٹر کا رہنے والا ہوں، میری فیملی میں ۶/ افراد ہیں، ایک بھائی (جوکہ پیشے سے انجینئر ہے)، دوبہنیں اور والد صاحب (جوکہ ریٹائرشدہ ٹیچر ہیں) اور میری ماں۔ میری بہن ڈاکٹر ہے، ہمیں لڑکے کی تلاش ہے (جو ڈاکٹر بھی ہو) تین چار سالوں سے۔ جتنے بھی رشتے ہمیں آئے تھے یا ہم نے انہیں بھیجے تھے ان سب نے میری بہن کو پسند نہیں فرمایا۔ میری بہن تھوڑی سی موٹی ہے بہت زیادہ نہیں۔ دو تین سالوں سے میری ماں میرے والد صاحب کو بری چیزیں بتاتی ہیں اسی لیے وہ کوئی بھی رشتہ تلاش نہیں کرتے،اور یہ سچ بھی ہے۔ وہ صرف گھر میں بیٹھے رہتے ہیں، جیسے کہ انہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ دو تین مہینہ سے تو وہ جمعہ کے علاوہ کوئی بھی نماز ادا نہیں کر رہے ہیں۔ میری امی میرے ابو کو کافی برا بھلا کہتیں، کبھی کبھی تو ”تم جلدی سے مر جانا تاکہ میں بچوں کی شادی کروا سکوں“ ایسا بھی کہتی ہیں۔ میرے بڑے بھائی ہیں، انہوں نے لاسٹ ٹائم (آخری بار) گھر والوں سے ۲۰۰۵ء یا ۲۰۰۶ء میں بات کی تھی تب سے وہ گھر میں بات نہیں کرتے، جمعہ کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھتے۔ وہ سرکاری نوکری کرتے ہیں، اِس وقت ان کی عمر ۳۰/ سال ہے اور وہ شادی نہ کرنے کے متعلق اپنے رشتہ داروں سے کہتے ہیں۔ ہمارے گھر میں صرف میں اور میری امی پوری نماز پڑھتے ہیں۔ آج بھی جب بھی کبھی ہمارے گھر میں شادی کا کارڈ آتا ہے تو امی پھر سے ابو کو برا بھلا کہتی ہیں۔ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوتا ہے تو امی کہتی ہیں کہ کاش اس آدمی کی جگہ میرے ابو مر جاتے۔ میں نے کافی دفعہ ان کو کہا کہ ایسا نہ کہیں پر وہ سنتی ہی نہیں ہیں، ان کو مدرسہ کے کئی عالموں نے سمجھایا، رشتے داروں نے سمجھایا پر وہ کسی کی نہیں سنتیں، اب میری دونوں بہنوں کو بھی میرے ابو سے نفرت ہو گئی ہے۔ میرے ابو دن بھر ایک کرسی پر بیٹھے سوچتے، کھانا کھاتے، باہر گھومتے پھرتے اور گھر کو آتے اور جاتے وقت گزارا کرتے رہتے ہیں۔ بہت سارے لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہاری بیٹی ہیں، جاوٴ گھومو اور رشتے دیکھو پر وہ سنتے ہیں اور پھر سے وہی اوپر کے شیڈیول (پرانی روش اور طریقہ) کے مطابق کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ دو تین سالوں سے چل رہا ہے، اب تو مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ خود کشی کرلوں پر پھر حدیث یاد آتی ہے کہ خودکشی کرنے والا جہنم میں ہمیشہ خود کشی ہی کرتا رہے گا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ گھر چھوڑ کر کہیں دور چلا جاوٴں پر پھر گھر والوں کا کیا ہوگا، یہ سوچ کر رُک جاتا ہوں۔ ہمارے اَڑوس پڑوس کے لوگ جو خوش رہتے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارا گھر ان جیسا کیوں نہیں ہے۔ ہم درحقیقت ان ماحول اور شادی کی وجہ سے بہت ہی پریشان ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کا حل بتائیں۔

    جواب نمبر: 154847

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 24-1/L=1/1439

    اولاد کے لیے والدین اور بیوی کے لیے شوہر نعمت ہیں، ان کی تعظیم ضروری ہے، والد کے بارے میں بدگمان ہونا، ان سے نفرت کرنا اسی طرح بیوی کا شوہر کو برا بھلا کہنا؛ بلکہ مرنے کی تمنا کرنا ہرگز جائز نہیں، اس سے توبہ کی ضرورت ہے، آپ مایوس نہ ہوں بلکہ حکمت و مصلحت سے والد صاحب کو سمجھائیں اور ان کی ہدایت کے لیے دعا کریں، پریشانی کے عالم میں اللہ پر بھروسہ کرنا اور اس سے دعائیں کرنا یہ ایک مومن کی شان ہے آپ اس کے مطابق عمل کریں، اور شادی کے لیے آپ اور آپ کے گھر والے ”یالطیف یا ودود“ پڑھتے رہیں ان شاء اللہ منجاب اللہ شادی کا نظم ہو جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند