• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 150156

    عنوان: آپ دونوں نے جب والدین کو اپنے نكاح كرنے كے بارے میں بتلایا اور لڑکی کے والد نے رضامندی کا اظہار کیا تو یہ نکاح بہرحال لازم ہوگیا

    سوال: حضرت! میرا سوال تھوڑا طویل ہے لیکن میری پوری زندگی اور ساری خوشیاں اس پر ہی ٹکی ہیں ۔ قریب تین سال پہلے مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوئی تب میں سعودی عرب میں تھا شروع میں ہم دوست تھے، فون پر باتیں کرتے تھے بعد میں جس دن ہمیں ایک دوسرے کو محبت کا احسال ہوا اسی دن ہم نے ایک دوسرے کو نکاح میں قبول کر لیا بنا کسی قاضی ، امام اور گواہ کے، اس کے بعد جب ایک سال بعد میں انڈیا واپس آیا اور اس لڑکی سے زندگی میں پہلی بار ملااسی دن میں نے اس سے نکاح کر لیا مسجد میں اور چار دن رہنے کے بعد میں اسے واپس اس کے گرلس ہوسٹل چھوڑ آیا اور ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ ہم نے نکاح ضرور کر لیا ہے لیکن ہم ساتھ تبھی رہیں گے جب ہمارے والدین ہماری شادی کو قبول کر لیں گے اور شادی کی ساری رسم و رواج کے ساتھ لڑکی وداع کریں گے، قریب ایک سال تک ہم نے اپنے والدین سے اپنے نکاح کی بات چھپائی اس کے بعد ہم نے اپنے اپنے والدین کو بتلادیا، میرے والدین نے ہاں کردی اور اس کے والدین نے بھی ہاں کہہ دی لیکن اب وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم سیفی نہیں ہو (دوسری کاسٹ/برادری کے) ہو اس لیے ہم تمہیں اپنی لڑکی وداع نہیں کرنا چاہتے ہماری بے عزتی ہوگی، اس لیے تم ہماری بیٹی کو طلاق دے دو، جب کہ میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں شیخ ہوں اور ان لوگوں نے زبان دی تھی کہ ہم دو سال میں لڑکی وداع کردیں گے عزت کے ساتھ، اب میری بیوی کی امی نہ مجھے فون پر بات کرنے دیتی ہیں اور نہ ملنے، بس طلاق کے لیے جبر کرتی ہیں، میری بیوی کے والدین کہتے ہیں کہ یہ نکاح جائز نہیں ہے کیوں کہ ہم شامل نہیں تھے ،ہم اس شادی کو نہیں مانتے، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تمہارے گھر والے ایسے بول رہے ہیں، تمہاری کیا مرضی ہے؟ اس بات پر میری بیوی کا کہنا ہے شادی جو کہ ہے اسی کو نبھاوٴں گی لیکن تمہارے ساتھ تبھی رہنے آوٴں گی جب میرے والدین کو راضی کریں گے، نہیں تو میں پوری زندگی ایسے ہی گذار دوں گی، شوہر تو تم تھے تم ہی رہو گے میرے ہمیشہ، اب اگر میں اس سے دور رہوں گا تو کیا ہمارا نکاح قائم رہے گا؟ اور اس کے والدین اس کی دوسری شادی کرا سکتے ہیں زبردستی بنا میرے نکاح سے فارغ ہوئے؟ اس اس مسئلہ میں آپ میری مدد کریں اور مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟ اور آپ کچھ باتیں، رائے مشورہ کے طور پر میری بیوی کے والدین کے لیے بھی لکھیں، میں انہیں یہ دکھا کر سمجھا سکوں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 150156

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 836-1051/sn=10/1438

    انڈیا آنے کے بعد آپ نے مسجد میں جو نکاح کیا اگر یہ نکاح کم ازکم دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا اسی طرح کے ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے ساتھ باقاعدہ کیا گیا تھا تو شرعاً یہ نکاح منعقد ہوگیا، اس کے ایک سال کے بعد آپ دونوں نے جب والدین کو بتلایا اور لڑکی کے والد نے رضامندی کا اظہار کیا تو یہ نکاح بہرحال لازم ہوگیا اگرچہ آپ کی برادری لڑکی کی برادری سے گھٹیا سمجھی جاتی ہو، بعد میں لڑکی کے والدین کا رخصتی سے انکار کردینا شرعاً غیر معتبر ہے، ان پر ضروری ہے کہ لڑکی کو رخصت کردیں، صرف اس بنا پر اس سے باز نہ رہیں کہ آپ کی برادری دوسری ہے، یہ لڑکی آپ کی بیوی ہے اور آئندہ بھی رہے گی اگرچہ آپ ایک سال یا اس سے زیادہ اس سے الگ رہیں، آپ کی طرف سے لڑکی کو طلاق یا خلع دیے بغیر لڑکی کا دوسری جگہ نکاح درست نہ ہوگا، صورتِ مسئولہ میں بہترہے کہ آپ خاندان یا علاقے کے بڑے بزرگوں کے ذریعے لڑکی کے والدین کو سمجھائیں کہ وہ لڑکی کو رخصت نہ کرنے پر اصرار نہ کریں؛ بلکہ اللہ پر بھروسہ کرنے ہوئے رخصت کردیں، اگر سنجیدگی سے کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ وہ راضی ہوجائیں گے۔ تنفذ نکاح حرة مکلّفة بلا رضا ولیّ ․․ ولہ أي للولي إذا کان عصبة ․․․ الاعتراض في غیر الکفو․․․ ما لم یسکت حتی تلد منہ لئلاّ یضیع الولد وینفي الحاقُ الحبل الظاہر بہ․․․ وبناءً علی الأول وہو ظاہر الروایة فرضی البعض من الأولیاء قبل العقد أو بعدہ کالکل إلخ (در مختار مع الشامي: ۴/ ۱۵۵، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند