• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 148620

    عنوان: شادی کہ موقع پر لڑکی کے والدین جو اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں اس كی كیا حقیقت ہے؟

    سوال: مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ شادی کہ موقع پر لڑکی کے والدین جو اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں، جس کا آج کل عام رواج ہے ، اس کی کیا حقیقت ہے ؟ تفصیل سے وضاحت فرمادیں۔اگر لڑکی کے والدین اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو اپنی استطاعت کے مطابق کچھ دیں(فرنیچر،فریج وغیرہ) جہیز کی صورت میں تو وہ لینا جائز ہے یا منع کردیں۔جہیز کے لیے رشتہ پکٌا ہونے کے بعد تھوڑا بہت منع کرنا چاہئے یا بالکل خاموش رہنا بہتر ہے (اس غرض سے کہ جو دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے اور اپنی استطاعت کے مطابق دیں گے ، ہمیں اس سے کیا) لیکن عمومی طور پر لڑکی کے گھر سے شادی سے پہلے جو جہیز آتا ہے وہ جہیز تمام قریبی رشتہ داروں کو گھر بلا کر دکھایا جاتا ہے ۔

    جواب نمبر: 148620

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 438-405/Sd=6/1438

     جہیز کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل اجزاء ملاحظہ فرمائیں:

    (الف) اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے ایسی چیزوں کا تحفہ پیش کرے، جو اُس کے لیے آیندہ زندگی میں کار آمد ہوں،خواہ وہ سامان کی شکل میں ہو یا ملبوسات وزیورات کی شکل میں ہو،تو شرعا اس میں مضائقہ نہیں؛ بلکہ صلہ رحمی کے طور پر نام و نمود سے بچتے ہوئے بغیر کسی جبر و دباوٴ کے اپنی حیثیت کے مطابق دینا مستحسن ہے، خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سادگی کے ساتھ کچھ جہیز عطا فرمایا ہے۔شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کے لیے کوئی مقدار بھی مقرر نہیں ہے، اگر دوسرے مفاسد نہ ہوں، تو باپ اپنے دلی تقاضے کے تحت جو کچھ دینا چاہے، دے سکتا ہے۔اسی طرح اگر لڑکی کے والد معاشرتی دباوٴ کے بغیر اپنی حیثیت کے مطابق لڑکے کو کچھ دینا چاہیں، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے۔

    (ب) لڑکی کے والد کے لیے لڑکی کو جہیز دینا ضروری نہیں ہے،اسی طرح لڑکی کے شوہر کے لیے ضروریات کا انتظام کرنا ضروری نہیں ہے۔جہیز نکاح کی ہر گزکوئی لازمی شرط نہیں ہے۔

     (ج) لڑکے اور اُس کے گھروالوں کو شرعا اور اخلاقاً کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ لڑکی اور اس کے گھروالوں سے جہیز کا مطالبہ کریں یا اس کی توقعات باندھیں۔ لڑکے والوں کی طرف سے صراحةً یا دلالةً لڑکی والوں کو زبردستی جہیز دینے پر مجبور کرنا قطعاً جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ کھلا ہوا جبر وظلم ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص محض مال کے لیے کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید تنگدست بنادے گا ”ومن تزوج لمالہا لم یزدہ اللہ إلا فقرًا (أخرجہ الطبراني في الأوسط، رقم ۲۳۴۲)

     (د) نام و نمود اور دکھاوے کے خاطر لڑکی کو جہیز دینا جائزنہیں ہے۔

    (ح) معاشرے کے دباوٴ کی وجہ سے اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینا معاشرے میں پھیلی ہوئی ایک بری رسم کا تعاون کرنا ہے، اس لیے یہ صورت بھی جائز نہیں ہے۔(مستفاد از اسلامی شادی ص: ۱۵۱، بحوالہ اصلاح الرسوم)ان اجزاء سے صورت مسئولہ کا حکم واضح ہوگیا کہ نام و نمود سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق بچی کو شادی کے موقع پر ضرورت کا کچھ سامان دینا جائز ہے؛ لیکن لڑکے والوں کو جہیز کا مطالبہ کرنا یا نام و نمود کے خاطر یا اپنی حیثیت سے زیادہ محض معاشرتی دباوٴ کی وجہ سے جہیز دینا شرعا جائز نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند