• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 148212

    عنوان: نکاح کے بعد مہر میں نقد کے بجائے مکان دینا؟

    سوال: اگر نکاح کے بعد بیوی اپنے حق مہر جو کہ ایک لاکھ روپئے مقرر تھی اس کے عوض اپنی مرضی سے مکان ملکیت میں دے دیا ہو یامیاں بیوی باہمی رضامندی سے اس بات پر متفق ہوں تو کیا:۔ (۱) اس کے بدلے بیوی سونے کے زیورات بطور اپنے حق مہر لے سکتی ہے؟ (۲) تو کیا اس صورت میں حق مہر ادا ہو جائے گا؟ (۳) اس کے لئے نکاح نامہ میں دوبارہ اندراج کروانا ہوگا یا اسٹامپ پیپر پر ہی تحریر کافی ہوگی؟ (۴) مذکورہ صورت میں کیا گواہان کی شہادت بھی اسٹامپ پیپر پر ضروری ہے؟

    جواب نمبر: 148212

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 289-283/N=5/1438

    (۱- ۴): اگر عقد نکاح میں مہر ایک لاکھ روپے تجویز ہوا، اس کے بعد میاں بیوی دونوں باہمی رضامندی سے ایک لاکھ روپے کے عوض کسی متعینہ مکان کے لین دین پر راضی ہوگئے ،یا باہمی رضامندی سے ایک لاکھ روپے کے عوض سونے کے زیورات پر معاملہ ہوگیا ، مثلاً یہ کہ ایک لاکھ روپے کے بجائے ۴/ تولہ سونے کا فلاں زیور دیدیا جائے اور اس سلسلہ میں کسی پر کوئی زور ودباوٴ نہیں ڈالا گیا تو شرعاً یہ معاملہ درست ہے اور اصل مہر کے بجائے متعینہ مکان یا سونے کے متعینہ زیورات ادا کرنے سے مہر کی ادائیگی ہوجائے گی، اور اس کے لیے نکاح نامہ میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، نیز اسٹامپ پیپر پر لکھوانا اور لوگوں کو گواہ بنانا بھی ضروری نہیں؛ البتہ اگر احتیاطاً لکھوالیا جائے اور دو چار باشرع مسلمانوں کو گواہ بنالیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ مناسب ہے۔ وجاز التصرف فی الثمن بھبة أو بیع أو غیرھما لو عیناً أي: مشاراً إلیہ ولو دیناً فالتصرف فیہ تملیک ممن علیہ الدین ولو بعوض ولا یجوز من غیرہ۔ ابن ملک (قبل قبضہ ) سواء تعین بالتعیین کمکیل أو لا کنقود ………وکذا الحکم في کل دین قبل قبضہ کمھر وأجرة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة ، ۷: ۳۷۶، ۳۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند