• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 146153

    عنوان: زوجین کے مابین نفقہ کی تقسیم

    سوال: زید کی دوبیویاں ہیں 1باکرہ بغیربچوں کے 2ثیبہ جس کے پہلے خاوند سے 3بچے ہیں 2 بیٹے 1 بیٹی زید پران دونوں کے درمیان نفقے کی تقسیم کس طرح واجب ہے ؟ نمبر 2 شریعت میں نفقہ کی تقسیم میں سب بیویاں برابر ہیں یا باکرہ ثیبہ یا جس سے شوہر کے بچے ہوں اور جس سے نہیں ہیں ان میں فرق کیا جا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 146153

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 116-113/N=2/1438

    (۱، ۲): نفقہ کی کمی زیادتی میں بیوی کے باکرہ یا ثیبہ ہونے یا بیوی کے بچوں والی ہونے ، نہ ہونے وغیرہ کا اعتبار نہیں ہوتا ، نیز مفتی بہ قول کے مطابق ایک بیوی کا دوسری بیوی سے تقابل بھی نہیں کیا جاتا؛ بلکہ ہر بیوی کے نفقہ میں اس کی اور شوہر کی مالی حالت کا اعتبار ہوتا ہے ، یعنی: اگر دونوں صاحب ثروت ومالدار ہوں تو مالداری کا نفقہ اور اگر دونوں غریب ہوں تو غربت کا نفقہ اور اگر ایک مالدار وصاحب ثروت ہو اور دوسرا غریب تو مالداری اور غربت کے بیچ کا نفقہ واجب ہوتا ہے (بہشتی زیور مدلل ۴: ۳۲، مسئلہ: ۸، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)، پس صورت مسئولہ میں بھی نفقہ کے سلسلہ میں ضروریات زندگی کے مد نظر صرف ہر بیوی اور شوہر کی مالی حیثیت وحالت کو معیار بنایا جائے گا، باکرہ یا ثیبہ یا بچوں والی ہونے نہ ہونے کو معیار نہیں بنایا جائے گا۔ فتجب- النفقة- للزوجة… علی زوجھا…… بقدر حالھما، بہ یفتی (الدر المختارمع رد المحتار، باب النفقة،۵:۲۷۸-۲۸۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”بہ یفتی“:کذا فی الھدایة، وھو قول الخصاف، وفی الولوالجیة: وھو الصحیح، وعلیہ الفتوی، وظاھر الروایة اعتبار حالہ فقط……… لکن المتون والشروح علی الأول……قال فی البحر: واتفقوا علی وجوب نفقة الموسرین إذا کانا موسرین وعلی نفقة المعسرین إذا کانا معسرین ، وإنما الاختلاف فیما إذاکان أحدھما موسراً والآخر معسراً فعلی ظاھر الروایة: الاعتبار لحال الرجل…………وأما علی المفتی بہ فتجب نفقة الوسط الخ (رد المحتار)، وقد علمت أن العدل في کلامہ بمعنی عدم الجور لا بمعنی التسویة فإنھا لا تلزم فی النفقة مطلقاً، قال فی البحر: ………وأما علی القول المفتی بہ من اعتبار حالھما فلا؛ فإنہ إحداھما قد تکون غنیة والأخری فقیرة فلا یلزم التسویة بینھما مطلقاً فی النفقة اھ (رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۴: ۳۷۸)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند