• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 11945

    عنوان:

    کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں شادی میں نکاح کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے کچھ شرائط عائد کی جارہی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مہر کے علاوہ لڑکی کے رشتہ داروں کی طرف سے لڑکے کو کہا جاتا ہے کہ گھر یلو ناچاقی کی صورت میں اگر طلاق کی نوبت آتی ہے تو لڑکی کو ایک لاکھ یا دو لاکھ یا کوئی بھی رقم دینی ہوگی۔ اس میں اس بات کی تخصیص نہیں کی جاتی ہے کہ آیا اگر ناچاقی کی صورت حال لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے۔ اب اگر اس طرح کی کئوی نوبت آتی ہے کہ گھریلو ناچاقی پیدا ہو تو لڑکا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح کردینا چاہتاہوں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح بہت کم ہے اور الحمد للہ اس کی طرف بات نہیں جاتی۔ لیکن لڑکے کو اس کا مقروض کردینا کہ نکاح کے وقت ہی اس پر یہ ذمہ داری لگادی جائے اور پھر وہ لڑکی کو اس کی کسی غلطی پر نہ ڈانت سکے، شرعاً کیسا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو فطرت کے مطابق بنایا ہے اور اس میں کسی قسم کی تنگی نہیں رکھی اور ہرشخص کو اس کا جائز حق دیا ہے۔ لیکن کیا لڑکی والوں کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بندہ نے کچھ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ...

    سوال:

    کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں شادی میں نکاح کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے کچھ شرائط عائد کی جارہی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مہر کے علاوہ لڑکی کے رشتہ داروں کی طرف سے لڑکے کو کہا جاتا ہے کہ گھر یلو ناچاقی کی صورت میں اگر طلاق کی نوبت آتی ہے تو لڑکی کو ایک لاکھ یا دو لاکھ یا کوئی بھی رقم دینی ہوگی۔ اس میں اس بات کی تخصیص نہیں کی جاتی ہے کہ آیا اگر ناچاقی کی صورت حال لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے۔ اب اگر اس طرح کی کئوی نوبت آتی ہے کہ گھریلو ناچاقی پیدا ہو تو لڑکا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح کردینا چاہتاہوں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح بہت کم ہے اور الحمد للہ اس کی طرف بات نہیں جاتی۔ لیکن لڑکے کو اس کا مقروض کردینا کہ نکاح کے وقت ہی اس پر یہ ذمہ داری لگادی جائے اور پھر وہ لڑکی کو اس کی کسی غلطی پر نہ ڈانت سکے، شرعاً کیسا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو فطرت کے مطابق بنایا ہے اور اس میں کسی قسم کی تنگی نہیں رکھی اور ہرشخص کو اس کا جائز حق دیا ہے۔ لیکن کیا لڑکی والوں کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بندہ نے کچھ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کرنا عین نکاح کے وقت بے برکتی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کو ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ بنایا ہے اوراس طرح شروع ہی میں شرط لگاکر اس کو گندہ نہیں کرنا چاہیے، آپ حضرات اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اس طرح کرنا شریعت مطہرہ کی رو سے کیسا ہے؟ ایا اس طرح کی کوئی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ از راہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائے، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔ نیز اس بات کی بھی اجازت لینا چاہوں گا کہ اگر میں آپ کے اس فتویٰ کو عام کرنا چاہوں اور اپنے لوگوں کو دکھانا چاہوں تو کیا آپ حضرات اس بات کی اجازت دیں گے۔

    جواب نمبر: 11945

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتویٰ: 837=622/ھ

     

    اس طرح رقم دینے کی کڑی شرط لگادینا اور شوہر کو جکڑدینا جائز نہیں نہ ان جیسی شرائط سے اصلاح ہوتی ہے، اگر ہوتی ہوئی نظر بھی آتی ہے تو عارضی ہوتی ہے، بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق پر اقدام کرنا انتہائی ناپسند اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے حد مبغوض حرکت ہے، اللہ پاک اس حرکت سے ناراض اور شیطان خوش ہوتا ہے، اسی طرح جو عورت بغیر کسی شرعی وجہ کے معمولی معمولی باتوں پر طلاق کا مطالبہ کربیٹھتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، نکاح اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، طلاق دے کر بغیر کسی ضرورت شدیدہ کے اس نعمت سے ہاتھ دھوبیٹھنا نعمتِ عظیمہ کی ناقدری ہے، اور تین طلاق دے کر رجعت وتجدید نکاح بغیر حلالہٴ شرعیہ سے دستبردار ہوجانا بے انتہا ناسمجھی ہے، جس سے معاشرہ میں بہت بڑی بڑی خرابیاں جنم پاتی ہیں یہ سب اہم مضامین قرآن کریم حدیث شریف سے ثابت ہیں، محض شرائط میں جکڑدینے سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اصالةً اس کے لیے ادائے حقوق کی فکر، حق تلفی سے احتراز، قبر، حشر، استحضارِ آخرت (ناحق ایک دوسرے کے درپئے آزار ہونے پر دنیا و آخرت میں وبال وعذاب کے مستحق ہونے کا استحضار) ضروری ہے، اگر کثیر رقم لازم کرنے کے بجائے شوہر وبیوی کے نزاعی معاملہ میں اہل علم وبااثر حضرات کی مجلس میں مرافعہ کو لازم کردیا جائے تو یہ اسلم صورت ہے یعنی مسلمانوں کو آمادہ کیا جائے کہ اگر باہم نزاع ہوجائے تو طلاق پر اقدام کرنے کے بجائے زوجین اور ان کے اولیاء و متعلقین مجلس میں معاملہ کو پیش کیا کریں اس میں باقاعدہ بیانات لے کر نباہ کی مناسب صورتیں اختیار کی جائیں، البتہ اگر زوجین اور ان کے اولیاء نیز مجلس کے اراکین یہ سمجھ لیں کہ اب نباہ کی کوئی صورت متوقع نہ رہی تو شوہر سے ایک طلاق رجعی دلواکر شرعی معاملات مالیہ کو دے دلاکر معاملہٴ نزاعی کو ختم کرادیا کریں، تو ان شاء اللہ بہت سے مفاسد کا انسداد ہوجائے گا، آپ اس فتویٰ کو شائع کرکے مسلمانوں میں اصلاحی اقدامات کی خاطر مساعی جمیلہ کو کام میں لائیں تو کچھ حرج نہیں، ہماری طرف سے اجازت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند