• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 10234

    عنوان:

    ولیمہ سنت ہے لیکناگر کوئی شخص ولیمہ کے بجائے اس قدر رقم کسی مدرسہ میں دے دے تو کیا یہ صحیح ہوگا؟ اگر نہیں تو ولیمہ کا اصل طریقہ آج کے دور میں کس طرح ہوگا؟

    سوال:

    ولیمہ سنت ہے لیکناگر کوئی شخص ولیمہ کے بجائے اس قدر رقم کسی مدرسہ میں دے دے تو کیا یہ صحیح ہوگا؟ اگر نہیں تو ولیمہ کا اصل طریقہ آج کے دور میں کس طرح ہوگا؟

    جواب نمبر: 10234

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 148=148/ م

     

    دعوتِ ولیمہ کی کئی مصلحتیں ہیں، جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجة اللہ البالغہ میں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ ولیمہ کے ذریعہ لطیف پیرایہ میں نکاح کی تشہیر ہوجاتی ہے۔ ولیمہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ شوہر، بیوی سے مل چکا ہے یا ملنے والا ہے، اور زفاف کی تشہیر اس لیے مطلوب ہے تاکہ اولاد کے نسب میں کوئی بدگمانی نہ کرے، ولیمہ سے اول وہلہ میں نکاح اور زناء میں امتیاز ہوجاتا ہے، اور برملا عورت کا شوہر کے ساتھ اختصاص ہوجاتا ہے۔ (رحمة اللہ الواسعہ) ولیمہ کی اس حکمت و مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ولیمے میں کھانے کی دعوت ہی شرعاً مطلوب ہے، پس ولیمہ کے بجائے اس قدر رقم کسی مدرسہ میں دیدینے سے ولیمہ کی حکمت و مصلحت حاصل نہیں ہوتی، ہاں اگر دعوت ولیمہ میں مدرسہ کے طلبہ کو بھی شریک کریا جائے یا ولیمہ کی دعوت گھر پر ہو اور مدرسہ کے طلبہ کے لیے الگ رقم دیکر ولیمہ کی نیت سے مدرسہ ہی میں کھانا کھلادیا جائے تو صحیح ہے۔

    (۲) ولیمہ کا مسنون طریقہ آج بھی یہی ہے کہ نکاح یا رخصتی کے بعد لوگوں کی دعوت کی جائے، اس میں ریاء وشہرت نہ ہو، حیثیت سے زائد نہ ہو،دعوت منکرات سے پاک ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند