• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 600130

    عنوان:

    لاک ڈاوٴن کے بعد بھی ہر ہر مسجد میں قیام جمعہ کا حکم

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین مندرجہ ذیل مسئلے میں لاک ڈاؤن سے قبل گاؤں کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ہوتی تھی اور وہ اتنی بڑی مسجد ہے کہ اس میں گاؤں کے لوگ آسانی سے سماجاتے ہیں اور تین سے چار سو لوگوں کی جگہ خالی بھی رہ جاتی ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کی جانب سے فتویٰ جاری ہوا تھا کہ ہر محلے کہ مسجد میں لوگ مختصر جماعت بناکر نماز جمعہ اداکرے اور باقی لوگ اپنے گھروں میں نماز ظہر اداکرلیں ۔لیکن اب لاک ڈاؤن میں رخصت مل رہی ہے حالات نارمل ہوگئے ہیں مارکٹ اور بازار کے پہلے سے حالات ہیں اور نماز جمعہ پہلے جیسے ادا ہونے لگی ہے لیکن دارلعلوم کے فتویٰ کی وجہ سے اب بھی لوگ دس بیس لوگوں کی جماعت بناکر نماز جمعہ اپنے اپنے محلے میں اداکررہے ہیں اور دلیل میں دارلعلوم کا فتویٰ پیش کررہے ہیں گاؤں کے علماء فرماتے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کی دارلعلوم کی طرف سے رخصت تھا اس لئے جمعہ ہورہی تھی نہیں تو گاؤں کی ہر مسجد میں جمعہ جائز نہیں کیونکہ اس سے جمعہ کا مقصد حاصل نہیں ہوگا اب گاؤں کے لوگ ان کی بات کو نہیں مان رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ دارلعلوم کا فتویٰ جائز کا ہے اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 600130

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:33-54/N=2/1442

     جس بستی میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں، وہاں اگرچہ ہر ہر مسجد میں جمعہ درست ہے؛ لیکن عام حالات میں ہر ہر مسجد میں جمعہ بہتر نہیں؛ لہٰذااگر آپ کی بستی میں اب پہلے کی طرح جمعہ وغیرہ میں نمازیوں کی کثرت پر پابندی نہیں ہے تو ہر ہر مسجد میں جمعہ قائم نہ کیا جائے؛ بلکہ صرف جامع مسجد میں یا حسب ضرورت ومصلحت مزید ایک، دو مساجد میں جمعہ قائم کیا جائے۔ بہتر یہی ہے۔

    (وتوٴدی في مصر واحد بمواضع کثیرة) مطلقاً علی المذھب، وعلیہ الفتوی، شرح المجمع للعیني وإمامة فتح القدیر دفعاً للحرج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجمعة، ۳: ۱۵، ۱۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۲۸، ۲۹، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”مطلقاً“: …ومقتضاہ أنہ لا یلزم أن یکون التعدد بقدر الحاجة کما یدل علیہ کلام السرخسي الآتي، قولہ: ”علی المذھب“: فقد ذکر الإمام السرخسي أن الصحیح من مذھب أبي حنیفة جواز إقامتھا في مصر واحد في مسجدین وأکثر، وبہ نأخذ لإطلاق ”لا جمعة إلا في مصر“، شرط المصر فقط (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند