• متفرقات >> اسلامی نام

    سوال نمبر: 152880

    عنوان: میری بیوی کا نام آبین ہے ، میں جاننا چاہوں گا کہ کیا یہ نام درست ہے؟

    سوال: (۱) میری بیوی کا نام آبین (Aabeen) ہے ، میں جاننا چاہوں گا کہ کیا یہ نام درست ہے؟اگر میں اس کو اسی نام سے پکاروں تو کیا یہ غلط ہے؟ (۲) میں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر بن عابد رکھاہے، کیا اس میں کوئی خرابی ہے؟ چونکہ بہت سارے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ نام نہیں رکھا جاسکتا، کیوں کہ ابو بکر کا معنی ” بکری کا باپ “ ہے، اور ابو بکر دراصل لقب تھا اور اصل نام عبدا لرحمن تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بکریوں کو چرانے لے جاتے تھے ، اسی لیے ابو بکر ان کا لقب پڑ گیا ، مجھے ایسے لوگوں کو کیا جواب دینا چاہئے؟ براہ کرم، میری مدد کریں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 152880

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1243-1196/N=11/1438

     (۱): آبین : کا مطلب: خود دارکئی مرد، انکار کرنے والے، اگر یہ کسی عورت کا نام ہو تو مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی عورت میں جس میں بہت زیادہ خود داری پائی جاتی ہو،یہ نام بہت اچھا نہیں ہے، کھینچ تان کر ہی مناسب معنی ہوتے ہیں؛ اس لیے اگر کوئی دوسرا نام رکھ دیا جائے یا صرف پکارنے کے لیے کوئی مناسب نام تجویز کرلیا جائے جیسے: زینب، رقیہ، عائشہ اور خدیجہ وغیرہ تو بہتر ہے۔

    (۲):ابو بکر اچھا نام ہے،اس نام میں شرعاً کوئی خرابی نہیں ہے، آپ نے اپنے بیٹے کا نام: ابوبکر رکھا، اچھا کیا۔ابو بکر وہ نام ہے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیکڑوں مرتبہ اپنی زبان مبارک ادا فرمایا اور اپنے کان مبارک سے سماعت فرمایا اور آپ (صلی للہ علیہ وسلم) نے اسے باقی رکھا اور صحابہرضی اللہ عنہم  اور صحابیاترضي الله عنهن  کے ناموں پر نام رکھنے میں بنیادی طور پر نسبت دیکھی جاتی ہے، اس کے اصل لغوی معنی نہیں دیکھے جاتے ، نیز علم وضع ثانی کی حیثیت رکھتا ہے؛ اس لیے ابو بکر نام بلاشبہ اچھا ہے۔ اور یہ بات صحیح ہے کہ ابوبکر حضرت ابو بکر صدیقرضي الله عنه  کالقب تھا، آپ کا نام نہیں تھا، آپ کا نام: عبد اللہ تھا؛ لیکن لقب نام ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ اور بکر کے معنی: بکری کے نہیں آتے ہیں، اس کے معنی ہیں: جوان اونٹ (القاموس الوحید)؛ اس لیے اس لفظ کے اصل لغوی معنی میں دولت اور مال داری کی طرف اشارہ ہے، خلاصہ یہ کہ ابوبکر نام اچھا ہے اور اعتراض کرنے والوں کا اعتراض جہالت پر مبنی ہے، آپ ان کی باتوں کی طرف کوئی دھیان نہ دیں۔

    روی الإمام مسلم في صحیحہ من حدیث المغیرة بن شعبةرحمه الله  أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إنھم کانوا یسمون بأسماء أنبیائھم والصالحین قبلھم“ (الصحیح لمسلم، کتاب الآداب، باب النھي عن التکني بأبی القاسم وبیان ما یستحب من الأسماء، ۲: ۲۰۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند