• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 68839

    عنوان: شیطان کی طرف کسی برے کام کی طرف نسبت كرنا؟

    سوال: ایک بار میں انٹرنیٹ کی کچھ بری ویب کھول رہا تھا وہ نہیں کھل رہی تھی،تو میں نے شیطان کو کہا اے شیطان یہ ویب کھول، کیوں کہ شیطان برا کام ہی کرتاہے اور یہ ویب بھی بری ہے ،میں نے سوچا برے کاموں میں اللہ سے کیوں کہوں ؟ یہ بہتر نہیں ہے ، کیا اس کا اثر ایمان پر پڑے گا؟ اور اس سے نجات کی کیا صورت ہے ؟

    جواب نمبر: 68839

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1262-1271/N=11/1437

    بایں معنی نسبت کرنا کہ شیطان ہی لوگوں کو برے کاموں کی دعوت دیتا ہے، ان پر اکساتا اور ابھارتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں خوشنما، دلکش اور جاذب نظر بناکر پیش کرتاوغیرہ ہے، جائز ودرست ہے، قرآن اور احادیث نبویہ میں سبب کے درجے میں جابجا شیطان کی طرف برے کاموں کی نسبت کی گئی ہے، لیکن شیطان سے کسی اچھے یا برے کام کی دعا کرنا یا اس سے استغاثہ کرنا ہرگز جائز نہیں؛ کیوں کہ دعا اور استغاثہ صرف اللہ رب العزت سے جائز ہے، کسی اور سے ہرگز نہیں؛ اس لیے آپ نے کسی گندی ویب کھولنے کے لیے جو شیطان کو پکارا اور اس سے درخواست کی، یہ آپ نے ناجائز وحرام کام کیا، اس سے توبہ واستغفار لازم ہے اور اگر آپ احتیاطاً ایمان ونکاح (اگر آپ شادی شدہ ہیں) کی بھی تجدید کرلیں تو بہت بہتر ہے، مستفاد: إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم، مثل: یا سیدي فلان أغثني، ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ، وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ (روح المعاني للآلوسیي، ۶: ۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، رقم الآیة: ۳۵) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند