• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 67590

    عنوان: كیا ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ سے دعا کرسکتے ہیں؟

    سوال: ایک دن میں نے سنا کہ ایک شخص بھائی عمران سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ آیا ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ سے دعا کرسکتے ہیں؟ انھو ن نے کہا کہ سورہ فاتحہ ام الدعا کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں ہے۔ ا س لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ نہیں دے سکتے ہیں۔ براہ کرم اس سوال کا جواب دیں تاکہ میں اپنے غیر مقلد دوست کو جواب دے سکوں۔

    جواب نمبر: 67590

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 865-872/SN=9/1437 جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرسکتے ہیں، سورہٴ فاتحہ میں وسیلے کے ذکر نہ ہونے سے اس کے عدم جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے جاری شدہ ایک فتوی ارسالِ خدمت ہے، اس میں آپ کے سوال کا تفصیلی جواب موجود ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔ از: محمد اسد اللہ غفرلہ 16/8/1437 الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند --------------------- 122/Sn سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں․․․․․․․․․ (۱) میں مسجد میں امام ہوں اور دعاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے مانگتا ہوں ایک شخص اس پر اعتراض کرتا ہے اور اس کو ناجائز کہتا ہے آپ حضرات احادیث شریفہ کی روشنی میں وسیلہ کی حیثیت واضح فرمائیں۔ (۲) یہ روایت صحیح ہے یا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو سینگی کے ذریعہ نکلنے والے خون کو باہر پھینکنے کے لئے دیا تو ان صحابی نے بجائے پھینکنے کے خود نوش کرلیا۔ (۳) نیز یہ روایت صحیح ہے یا نہیں کہ جس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے سجدہ سے سر اٹھایا تو آسمان پر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا پایا تو حضرت آدم علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ اے اللہ تیرے نام کے ساتھ جس کا نام ملا ہوا ہے اس کے صدقہ میری توبہ قبول فرما۔ (۴) کیا یہ صحیح بات ہے کہ جن لوگوں نے یا ارواح نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ندائے حج پر لبیک کہا وہی حج کریں گے۔ 100/Sn جواب: ․․․․․․․․․․ (۱) مذکور فی السوال شخص کا قول غلط ہے، اہل السنت والجماعت بہ شمول علمائے دیوبند کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ، اولیاء اور مشائخ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی، مثلاً یہ کہے کہ اے اللہ میں فلاں بزرگ کے وسیلے سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری دعا قبول فرمالیں اور میری ضرورت پوری فرمادیں، چنانچہ ”المہند علی المفند “ میں ہے: عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل في الدعوات بالأنبیاء والصالحین من الأولیاء والشہداء والصالحین في حیاتہم وبعد وفاتہم بأن یقول في دعائہ اللہم إني أتوسل إلیک بفلان أن تجیب دعوتي وتقضي حاجتي إلی غیر ذالک الخ ․․(المہند علی المفند، ص: ۴) اس سلسلے میں سب سے صریح دلیل حضرت عثمان بن حنیف کی روایت ہے جسے ترمذی نے اپنی ” سنن “ میں اور طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ میں روایت کی ہے، ترمذی کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو: اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضي لي، اللہم فشفعہ فيّ یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفارش قبول فرما۔ (ترمذی، رقم: ۳۵۵۸، باب بلا عنوان)۔ اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان غنی کے عہدخلافت میں ایک شخص کسی ضرورت سے ان کے پاس کئی مرتبہ حاضر ہوا اور آپ متوجہ نہیں ہوئے؛ لہذا حضرت عثمان بن حنیف نے اس کو وہ دعا سکھلائی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا کو سکھلائی تھی جیسا کہ ترمذی کی روایت سے اوپر مذکور ہوا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: روح المعانی، ۳/۳۹۷، مائدة ط: بیروت۔ (۲) جی ہاں، یہ واقعہ صحیح ہے، ”حیاة الصحابة“ میں معجم طبرانی سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔ وأخرج الطبراني عن سفینة قال: احتتج النبيصلی اللہ علیہ وسلم قال: خذ ہذا الدم فادفنہ من الدواب والطیر والناس فتغیبت فشربتہ، ثم ذکرت ذلک لہ فضحک، قال الہیثم: رجال الطبرانی ثقات․ (حیاة الصحابة: ۴/۲۸، باب شرب سفینة دمہ علیہ السلام، ط: بیروت)․ (۳) یہ روایت البدیہ والنہایة اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مذکور ہے، حاکم نے اس کے بارے میں لکھا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے؛ لیکن علامہ ذہبی نے اس پر تعلیق کرتے ہوئے اسے ”موضوع“ قرار دیا۔ (مستدرک مع تعلیق الذہبی ، رقم: ۴۲۲۸، ط: دارالکتب العلمیة) نیز دیگر حضرات نے بھی اس روایت کی تضعیف کی ہے، اس لئے یہ قابل اعتماد نہیں ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں: تخریج ”نشر الطیب“ ۔ (۴) جی ہاں، یہ بات صحیح ہے، علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی، سورہٴ حج، آیت: ۲۷ میں اسے مفصلاً نقل کیا ہے۔ نیز دیکھیں: انوار مناسک (ص:۹۰ تا ۹۵، ط: مکتبہ یوسفیہ، دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند