• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 67335

    عنوان: دعا ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیلے سے مانگ سکتے ہیں ؟

    سوال: دعا ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیلے سے مانگ سکتے ہیں ، میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ صحابہ کہاں نبی کے طفیل میں مانگتے تھے ، کوئی حدیث ہے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 67335

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1196-1187/N=11/1437 دعا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کرنا جائز ودرست ہے ، مثلاً دعا کرنے والا یوں کہے: اے اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہٴ طفیل میں میری دعا قبول فرما! صحابہ کرام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا ثابت ہے، چناں چہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا فرمائی اور ان کی دعا قبول ہوئی اور تمام اہل السنة والجماعہ علماکا اس کے جواز پر اجماع ہے اور جنہوں نے اختلاف کیا وہ ان کا تفرد ہے جو قابل قبول نہیں، البتہ دعا میں وسیلہ اختیار کرنے کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے، یعنی: آدمی یہ نہ سمجھے کہ وسیلہ اختیار کیے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی؛ کیوں کہ حق تعالی شانہ وسیلہ کے بغیر بھی دعا قبول فرماتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم (کی مختلف آیات ) کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے، أخرج الترمذي في سننہ (أحادیث شتی من أبواب الدعوات باب: ۷) عن عثمان بن حنیف أن رجلا ضریر البصر أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال: ادع اللہ أن یعافینی، قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک، قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوء ہ ویدعو بہذا الدعاء، اللہم إنی أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمة إنی توجہت بک إلی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی لی، اللہم فشفعہ فيّ اھ، وقال عبد الرحمن المبارکفوری في تحفة الأحوذي (۱۰: ۳۴) تنبیہ: قال الشیخ عبدالغنی في إنجاح الحاجة: ذکر شیخنا عابد السندي في رسالتہ: والحدیث یدل علی جواز التوسل والاستشفاع بذاتہ المکرم في حیاتہ، وأما بعد مماتہ فقد روی الطبراني فيالکبیر عن عثمان بن حنیف أن رجلا کان یختلف إلی عثمان بن عفان في حاجة لہ فذکر الحدیث قال: وقد کتب شیخنا المذکور رسالة مستقلة فیہا التفصیل من أراد فلیرجع إلیہا انتہی، وقال الشوکاني في تحفة الذاکرین: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إلی اللہ عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللہ سبحانہ وتعالی وأنہ المعطي المانع ما شاء کان ومالم یشأ لم یکن انتہی اھ․ وقال ابن الہمام في فتح القدیر (کتاب الحج المقصد الثالث في زیارة قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم ۳: ۱۶۹) : ثم یقول في موقفہ: السلام علیک یا رسول اللہ․․․․ ویسأل اللہ تعالیٰ حاجتہ متوسلا إلی اللہ بحضرة نبیہ علیہ الصلاة والسلام اھ، وقال في الاختیار لتعلیل المختار (۱: ۳۵۴) فیما یقال عند زیارة قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم: … جئناک من بلاد شاسعة ونواح بعیدة قاصدین … الاستشفاع بک إلی ربنا… ثم یقف عند رأسہ کالأول ویقول… وقد جئناک…مستشفعین بنبیک إلیک اھ، ومثلہ في مراقي الفلاح وحاشیة الطحطاوي علی الدر والفتاوی الہندیة وغیرہا․وقال ابن عابدین في رد المحتار في باب الاستبراء من کتاب الحظر والإباحة (۹: ۵۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند) نقلاً عن السبکي: یحسن التوسل بالنبي - صلی اللہ تعالی علیہ وسلم -إلی ربہ، ولم ینکرہ أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تیمیة فابتدع ما لم یقلہ عالم قبلہ اھ ، وقال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶: ۱۲۶، سورة المائدة، الآیة: ۳۵) : وبعد ھذا کلہ أنا لا أری بأساً فی التوسل إلی اللہ تعالی بجاہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم عند اللہ حیا ومیتاً اھ، وقال أیضاً: إن التوسل بجاہ غیر النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا بأس بہ أیضاً إن کان المتوسل بجاھہ مما علم أن لہ جاھاً عند اللہ تعالی کالمقطوع بصلاحہ وولایتہ اھ، وقال العلامة خلیل أحمد السھارن فوري فی المھند علی المفند فی الجواب عن السوٴال الثالث والرابع (ص ۳۷) : عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالأنبیاء والصالحین من الأولیاء والشھداء والصدیقین في حیاتھم وبعد وفاتھم بأن یقول في دعائہ اللھم إني أتوسل إلیک بفلان أن تجیب دعوتي وتقضي حاجتي إلی غیر ذلک کما صرح بہ شیخنا ومولانا الشاہ محمد إسحاق الدھلوي ثم المھاجر المکي، ثم بینہ في فتاواہ شیخنا ومولانا رشید أحمد الکنکوہي رحمة اللہ علیھما اھ، نیز فتاوی رشیدیہ (ص۱۴۲) اور باقیات فتاوی رشیدیہ (ص ۵۷، ۵۸) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند