• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 66538

    عنوان: نیت کا تعلق اصالةً دل سے ہوتا ہے تاہم دل کی نیت میں پختگی پیدا کرنے کے لیے زبان سے کہہ لے تو اس میں کچھ حرج نہیں

    سوال: کیا نماز سے پہلے اردو الفاظ میں نیت کہنا حرام اور بدعت ہے؟میں نے ایک شافعی امام کی کتاب پڑھی (مجھے بہت زیادہ یقین نہیں ہے)، کیوں کہ میرے چچا حج سے واپسی پر یہ کتاب لائے تھے،اس میں میں لکھا تھا کہ نیت الفاظ میں کہنا بدعت اور حرام ہے، چونکہ نیت صرف دل سے ہوتی ہے؟میں نے مقامی مسجد کے امام صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حنفی فقہ میں یہ جائزہے اور ہمیں بچپن سے بھی یہی سیکھا یا گیاہے۔ براہ کرم، مستند احادیث کے حوالے سے اس پر روشنی ڈالیں۔ جزاک اللہ خیر

    جواب نمبر: 66538

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1014-1007/H=10/1437

    یہ صحیح ہے کہ نیت کا تعلق اصالةً دل سے ہوتا ہے تاہم دل کی نیت میں پختگی پیدا کرنے کے لیے زبان سے کہہ لے تو اس میں کچھ حرج نہیں اور نماز کی نیت کے زبان سے کہنے کے سلسلہ میں اگر چہ کوئی حدیث تو نہیں ملی تاہم حج کے سلسلہ میں احرام باندھتے وقت زبان سے نیت کے اظہار کے الفاظ منقول وماثور ہیں مثلاً اللہم انی أرید الحج فیسرہ لي․․․․ وتقبلہ منی اھ درمختار وفی شرحہ الفتاویٰ ردالمختار لکن اعترضہ الرحمتی بما فی صحیح البخاری عن انس رضي اللہ تعالی عنہ سمعتہم یصرخون بہما جمیعاً وعنہ ثم أہل بحج وعمرة وأہل الناس بہما إلیٰ غیر ذالک مما ہو مصرح بالنطق بما یفید معنی النیة الخ (فتاویٰ شامی ج:۲ ص:۱۵۸ مطبوعہ نعمانیہ) حاصل یہ کہ نیت کے الفاظ کو زبان سے کہہ لینے کی اصل موجود ہے اس لیے مطلقاً بدعت کا اطلاق درست نہیں البتہ اگر کوئی شخص الفاظ نیت کو زبان سے کہنا واجب قرار دے تو اس کا بدعت ہونا ظاہر ہے پس امام صاحب نے جو کچھ آپ کو بتلایا وہ درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند