عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 64854
جواب نمبر: 64854
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 690-636/Sn=8/1437 اسرائیل دراصل حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام ہے، ان سے جو نسل چلی وہ ”بنی اسرائیل“ کہلائی، چونکہ حضرت موسی علیہ السلام بھی اسی قوم کی جانب مبعوث ہوئے اسی لیے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کو بھی بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت نے تشریعی اور غیر تشریعی دونوں طرح کے نبی بھیجے ہیں، چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام غیر تشریعی نبی تھے؛ اس لیے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام ہی کی شریعت کی تبلیغ کے لیے مبعوث کیے گئے، ان کو مستقل کتاب و شریعت نہیں دی گئی تھی، اور حضرت عیسی علیہ السلام تشریعی نبی تھے؛ اس لیے کہ انھیں مستقل کتاب وشریعت دی گئی تھی، محض سابق شریعت کی تبلیغ کے لیے مبعوث نہ ہوئے تھے۔ دیکھئے: معارف القرآن (ج: ۶، ص: ۲۷۷، ط: نعیمیہ) اور ابن کثیر میں ہے: ․․․ ومہیجًا لہم بذکر أبیہم إسرائیل وہو نبي اللہ یعقوب علیہ السلام․․․ فإسرائیل ہو یعقوب علیہ السلام بدلیل ما رواہ أبوداوٴد الطیالسی․․․ عبد اللہ بن عباس قال: حَضَرَت عصابة من الیہود نبیَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لہم: ہل تعلمون أن إسرائیل یعقوب؟ قالوا: اللہم نعم، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: اللہم فاشہد، (تفسیر ابن کثیر، ج:۱ ص: ۲۲۱، سورة البقرة، ط: زکریا)․․․ وقیل الرسول من بعثہ اللہ بشریعة مجددة یدعو الناس إلیہا، والنبي یعمہ ومن بعثہ لتقریر شرع سابق کأنبیاء بني إسرائیل الذین کانوا بین موسی وعیسی فکل رسول نبي ولیس کل نبي رسولا․ (تفسیر مظہری: ج: ۶، ص: ۲۵۴، سورة الحج، آیت: وما أرسلنا من قبلک من رسول ولا نبي․․․ الآیة، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند