• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 63748

    عنوان: نماز کے دوران سجدے میں دعا کرنا

    سوال: میں فقہ حنفی پر عمل کرتاہوں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا میں نماز کے دوران سجدہ میں دعا کرسکتاہوں؟

    جواب نمبر: 63748

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 315-372/N=4/1437 نماز میں سجدے میں عربی میں دعا کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ کلام الناس کے مشابہ نہ ہو، البتہ فرائض میں افضل یہ ہے کہ سجدے میں صرف سجدے کی تسبیح پڑھی جائے، اسی طرح رکوع، جلسہ اور قومہ میں بھی، اور نماز میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان مثلاً اردو، فارسی یا انگریزی وغیرہ میں دعا کرنا جائز نہیں، مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح عربی میں ایسی دعا کرنا بھی درست نہیں جو کلام الناس کے مشابہ ہو جیسے: اللھم زوجنی فلانة، اللھم ارزقني مالایا اللھم احملنی دراجة ناریة؛ بلکہ اگر کسی ایسی چیز کی دعا کی گئی جس کا سوال بندوں سے محال نہیں اور وہ الفاظ قرآن یا حدیث میں کہیں نہیں آئے تو نماز فاسد ہوجا ئے گی، اور اگر اس طرح کی دعا قعدہ اخیرہ میں التحیات کے بقدر بیٹھنے کے بعد کی گئی تو نماز نقص کے ساتھ ختم ہوجائے گی اور ذمہ فارغ ہوجا ئے گا، عن أبي ھریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعاء (کتاب الأذکار للنووی، باب أذکار السجود، ص: ۴۶ بحوالہ: صحیح مسلم) ، وعن أبي ھریرة أیضاً أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول في سجودہ: اللھم اغفرلي ذنبي کلہ دقہ وجلہ وأولہ وآخرہ وعلانیتہ وسرہ (حوالہ بالا) ، وعن عائشة قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یکثر أن یقول في رکوعہ وسجودہ: سبحانک اللھم ربنا وبحمدک، اللھم اغفرلي (حوالہ بالا ص ۴۵، بحوالہ: صحیحین) ، وعن عائشة أیضاً قالت: - في روایة لمسلم-فوقعت یدي علی بطن قدمیہ وھو فی المسجد، وھما منصوبتان وھو یقول: اللھم أعوذ برضاک من سخطک، وبمعافاتک من عقوبتک، وأعوذبک منک، لا أحصي ثناء علیک، أنت کما أثنیت علی نفسک (حوالہ بالا)، وعن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فأما الرکوع فعظموا فیہ الرب وأما السجود فاجتھدوا فیہ الدعاء فقمنٌ أن یستجاب لکم (حوالہ بالا ص ۴۵، ۴۷ بحوالہ: صحیح مسلم) ، ولیس بینھما ذکر مسنون، وکذا لیس بعد رفعہ من الرکوع دعاء، وکذا لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح علی المذھب، وما ورد محمول علی النفل (در مختار مع شامی ۲: ۲۱۲، ۲۱۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، وأشار المصنف إلی أنہ لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیحات، وما ورد فی السنة من غیرھا فمحمول علی النوافل تھجداً أو غیرہ (البحر الرائق ۱: ۵۵۲، مطبوعہ؛ مکتبہ زکریا دیوبند) ، نیز فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل (۵: ۶۱۳، ۶۱۴، ۶۱۷، سوال: ۲۳۹۲، ۲۳۹۴) دیکھیں، ودعا بالعربیة وحرم بغیرھا نھر، ……بالأدعیہ المذکورة فی القرآن والسنة، لا بما یشبہ کلام الناس، اضطرب فیہ کلامھم ولا سیما المصنف، والمختار کما قالہ الحلبي أن ما ھو فی القرآن أو فی الحدیث لا یفسد، وما لیس في أحدھما إن استحال طلبہ من الخلق لا یفسد، وإلا یفسد لو قبل قدر التشھد، وإلا تتم بہ ما لم یتذکر سجدة فلا تفسد بسوٴال المغفرة مطلقا ولولعمي أو لعمرو (در مختار مع شامی ۲: ۲۳۳-۲۳۸) ، قولہ: ”وحرم بغیرھا“: ولا یبعد أن یکون الدعاء بالفارسیة فی الصلاة مکروھاً تحریما فی الصلاة (شامی)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند