عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 62867
جواب نمبر: 62867
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 262-295/N=3/1437-U (۱) حضرات اولیائے کرام، بزرگان دین، شہدائے کرام اور دیگر نیک وپرہیزگار بندگان خدا کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کرنا جائز ہے ، مثلاً یوں کہے: اے اللہ! اپنے اولیا کے طفیل یا فلاں بزرگ کے طفیل میری فلاں ضرورت پوری فرما، میری فلاں پریشانی دور فرما،اور اس طرح وسیلہ سے دعا کرنے کے لیے اس ولی یا بزرگ کی مزار پر حاضر ہونے کی ضرورت نہیں،جس کے وسیلہ سے دعا کی جائے؛ بلکہ گھر رہ کر بھی اس طرح وسیلہ سے دعا کی جاسکتی ہے، البتہ دعا میں وسیلہ اختیار کرنے کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے، قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶: ۱۲۶، سورة المائدة، الآیة:۳۵): وبعد ھذا کلہ أنا لا أری بأساً فی التوسل إلی اللہ تعالی بجاہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم عند اللہ حیا ومیتاً اھ،وقال أیضاً: إن التوسل بجاہ غیر النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا بأس بہ أیضاً إن کان المتوسل بجاھہ مما علم أن لہ جاھاً عند اللہ تعالی کالمقطوع بصلاحہ وولایتہ اھ، وقال العلامة خلیل أحمد السھارن فوري فی المھند علی المفند فی الجواب عن السوٴال الثالث والرابع (ص ۳۷):عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالأنبیاء والصالحین من الأولیاء والشھداء والصدیقین في حیاتھم وبعد وفاتھم بأن یقول في دعائہ اللھم إني أتوسل إلیک بفلان أن تجیب دعوتي وتقضي حاجتي إلی غیر ذلک کما صرح بہ شیخنا ومولانا الشاہ محمد إسحاق الدھلوي ثم المھاجر المکي، ثم بینہ في فتاواہ شیخنا ومولانا رشید أحمد الکنکوہي رحمة اللہ علیھما اھ، وقال الشوکاني في تحفة الذاکرین (ص ۵۰ ط طیبة، بیروت): وأما التوسل بالصالحین فمنہ ما ثبت فی الصحیح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي اللہ عنہ․ وقال عمر رضی اللہ عنہ: اللہم إنا نتوسل إلیْک بعم نبینا۔ نیز فتاوی رشیدیہ (ص۱۴۲) اور باقیات فتاوی رشیدیہ (ص ۵۷، ۵۸) دیکھیں۔ واضح رہے کہ کسی مرحوم بزرگ یا ولی وغیرہ سے براہ راست کسی چیز کی دعا کرنا ، مثلاً یوں کہے کہ اے خواجہ صاحب ! مجھے بیٹا عنایت فرمادیجئے یا میری فلاں پریشانی دور فرمادیجئے یہ ہرگزجائز نہیں ہے ؛بلکہ اس میں شرک کا اندیشہ ہے بالخصوص جب کہ صاحب قبر یا مزار کو مشکل کشا یا حاجت روا سمجھ کر اس طرح دعا کی جائے ؛لہٰذا اس سے پرہیز کرنا لازم وضروری ہے، قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶:۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، الآیة: ۳۵):إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم ، مثل: یا سیدي فلان أغثني،ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ،وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ (۲،۳):کسی زندہ پیر یا بزرگ سے دعا کی درخواست کرنا اور ان سے اپنے لیے دعا کرانا بلا شبہ جائز ہے ،صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کیا کرتے ہیں جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے ؛ بلکہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمرہ کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: مجھے بھی اپنی دعاوٴں میں شامل رکھنا، بھولنا نہیں(مشکوة شریف ص ۱۹۵)،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر حاضر ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا بھی بلا شبہ جائز ہے ؛کیوں کہ انبیا اپنی قبروں میں باحیات ہوتے ہیں اور زائرین کا سلام اور ان کی درخواستیں وغیرہ سنتے ہیں، اس پر پوری امت کا اجماع ہے، لیکن کسی ولی یا بزرگ کی قبر یا مزار پر حاضر ہوکر ان سے دعا کی درخواست کرنا مختلف فیہ ہیں؛کیوں کہ اس کا مدار اس پر ہے کہ غیر انبیا قبروں میں سنتے ہیں یا نہیں؟ اور اس میں اختلاف ہے ،پس جو حضرات سماع کے قائل ہیں، ان کے نزیک صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست کرسکتے ہیں، اور جو حضرات سماع کی نفی کرتے ہیں، ان کے نزدیک صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست کرنا لا حاصل ہے، اور دلائل دونوں طرف ہیں ؛اسی لیے بعض محقق علمائے کرام نے سماع کے مسئلہ میں توقف کا قول اختیار کیا ہے؛ اس لیے احوط یہ ہے کہ صاحب قبر یا مزار سے دعا کی درخواست نہ کی جائے ،بالخصوص جب کہ عوام اس طرح کی چیزوں میں حدود کی رعایت نہیں کرتی اور براہ راست صاحب قبر یا مزار سے دعا کرنے لگتی ہے جو بلا شبہ ناجائز وحرام ہے ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ نے فرمایا:قبور پر جاکر دعا کا طالب ہونا قرون ثلاثہ میں ثابت نہیں ہوا؛ لہذا بدعت ہونا اس کا اشبہ بالصواب ہے اگرچہ بسبب خلاف علما کے اس کے فاعل پر ملامت نہیں کرسکتے، مگر عوام کو اس سے منع کرنا ضروری ہے کہ رفتہ رفتہ شرک تک نوبت پہنچادیں گے (باقیات فتاوی رشیدیہ ص ۶۰، ۶۱)،الحاصل کسی مرحوم بزرگ یا پیر سے دعا کی درخواست نہ کی جائے ، نیز اس مقصد کے لیے ان کی مزار یا قبر پر حاضر ہونے کی بھی ضرورت نہیں، البتہ اگر کسی زندہ بزرگ یا ولی کے پاس حاضر ہوکر دعا کی درخواست کرے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند