• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 62330

    عنوان: کیا ہم کسی کو پیسہ اس کے کاروبار میں لگانے کے لیے دیں یا ہم کسی سے اپنے کاروبار میں لگانے کے لیے لیں تو کیا احتیاط کرنا چاہئے کہ کوئی گناہ نہ ہو۔

    سوال: (۱) کیا ہم کسی کو پیسہ اس کے کاروبار میں لگانے کے لیے دیں یا ہم کسی سے اپنے کاروبار میں لگانے کے لیے لیں تو کیا احتیاط کرنا چاہئے کہ کوئی گناہ نہ ہو ۔ (۲) ایک کاروباری پانچ لوگوں سے پیسے لیتاہے اور اس کی دکان میں آٹھ دس مختلف سامان الگ الگ قیمت کے ہوتے ہیں تو ان پانچوں کو اپنے منافع سے کس طرح شیئر دے گا؟ (۳) کیا اگر کوئی نیا بزنس شروع کرہا ہے ، اگر نقصان ہوا تو جس سے کچھ پیسے لیے ہیں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ (۴) میں نے پیس ٹی وی پر سنا ہے کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھاؤ پر بھاؤ مت بڑھا ؤ ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قیمت پر دوسری قیمت مت لگا ؤ۔ تو پھر جو نیلا می ہوتی ہے جس میں بولی لگتی ہے وہ کیسا ہے؟ شیئر بازار میں کسی نے 40.68 لگایا اس پر ہم 40.75 لگا لیں تو یہ کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 62330

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 167-184/L=3/1437-U (۱) سب سے پہلے کسی کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کا کاروبار شرعاً حلال ہے یا نہیں، نیز وہ امین اور مسائل شرکت سے واقف ہے یا نہیں، اگر کسی میں یہ چیزیں پائی جائیں تو اس کے ساتھ شرکت کا معاملہ کیا جائے یا کسی مفتی کے سامنے اپنے کاروبار کی تفصیل بتاکر اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ (۲) اس کو چاہیے کہ اولاً شرکت کس طرح ہوگی اس کی وضاحت کرے اگر شرکت مکمل دوکان میں مطلوب ہو تو مکمل سامان جو دوکان میں موجود ہے اس کی قیمت لگادی جائے اور جو قیمت بنے وہ اس شخص کا رأس المال کہلائے گا پھر جن جن کو شریک کرنا ہو ان سے جتنی رقم لی جائے اس کو اصل سرمایہ میں شامل کرلیا جائے۔ اور شرکت کا معاملہ کیا جائے پھر منافع فیصد کے اعتبار سے متعین کرلیے جائیں اور اگر دوکان کے کسی سامان میں شرکت مطلوب ہو تو اس سامان کی قیمت متعین کی جائے اور جو قیمت ہو وہ اس کا سرمایہ ہوگا اور پھر جتنے لوگ شریک ہوں ان سے رقم لے کر شرکت کا معاملہ کیا جائے، ایسی صورت میں ہرشخض اس سامان اور رقم میں شریک ہوگا پھر باہم منافع کا یقین کرلیا جائے اگر کوئی شخص رقم یا مال کے اعتبار سے شریک ہونے کے ساتھ ساتھ محنت بھی کررہا ہے تو اس کے فیصد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ (۳) شرکت میں نقصان کی صورت میں ہرشریک ورأس المال کے اعتبار سے نقصان میں شریک ہوتا ہے۔ (۴) حدیث شریف میں اپنے بھائی کے بھاوٴ پر بھاوٴ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ بائع اور مشتری میں معاملہ تام اور پختہ ہوجائے بائع بیچنے پر اور مشتری خریدنے پر راضی ہوجائے لیکن ابھی ان دونوں نے عقد نہیں کیا اس دوران کوئی آکر بائع سے کہے کہ میں اس سامان کو اس سے زائد قیمت پر خریدتا ہوں یا مشتری سے کہے کہ میں اس سے بہتر اس سے کم قیمت پر تمھیں فروخت کررہا ہوں یہ ناجائز ہے اس کے علاوہ نیلامی میں بولی لگتی رہتی ہے اور بائع اور مشتری کے درمیان ابھی معاملہ پختہ نہیں ہوتا اس لیے دوسرے یا تیسرے کو اختیار ہے کہ وہ اس سے زائد رقم بول کر سامان کو خریدلے۔ قال في عمدة القاري: (ولا یسوم علی سوم أخیہ) وہو السوم علی السوم، وہو أن یتفق صاحب السلعة والراغب فیہا علی البیع ولم یعقداہ فیقول آخر لصاحبہا: أنا أشتریہا بأکثر، أو للراغب: أنا أبیعک خیرا منہا بأرخص، وہذا حرام بعد استقرار الثمن، بخلاف ما یباع فیمن یزید، فإنہ قبل الاستقرار․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند