• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 61674

    عنوان: دعا مانگتے وقت کسی کا وسیلہ دینا؟

    سوال: مفتی صاحب اللہ تعالی ہر جگہ ہر کسی کی سنتا ہے. کیا دعا مانگتے وقت کسی ایسے بزرگ ہستی کا وسیلہ دینا جو کہ وفات پا چکا ہو جائز هے؟ ہماری مسجد کے امام کہہ رہے ہے کہ یہ کسی حدیث میں نہیں ہے نہ ہی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ (ص ) کے قبر مبارک پہ جا کر دعا منگتے تهے بلکہ آپ (ص ) کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ (ص ) کے چچا حضرت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرواتے تهے۔ مہربانی فرما کر رہنمائی فرم دیجئے کہ وسیلہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 61674

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1209-1209/M=1/1437-U کسی نبی یا ولی کے توسُّل سے دعاء کرنا مطلقاً درست ہے، خواہ مردہ ہو یا زندہ؛ چنانچہ المہند علی المفندمیں صراحت ہے کہ: ”انبیاء وصلحاء کے توسل سے دعا کرنا درست ہے“۔ اور مسجد کے امام صاحب کا توسل کا انکار کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کی دعا سیکھی پھر آپ کی وفات کے بعد انھوں نے یہی دعاء ایک ضرورت مند صحابی کو بتلائی انہوں نے اس پر عمل کیا اور ان کی ضرورت پوری ہوگئی، پھر اُس شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شکریہ ادا کیا، اُس پر انھوں نے وہی روایت سنائی جس میں دعائے توسل کا ذکر ہے، اسی طرح حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت جو طبرانی میں آئی ہے اس میں ”پہلے انبیاء کے توسُّل کا بھی ذکر ہے“۔ اور گذشتہ انبیاء سے توسل ان کی وفات کے بعد ہی ہوسکتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ حدیث سے ثہ ثابت نہیں صحیح نہیں ہے۔ نیز حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرانا جو حدیث میں منقول ہے، اُس سے صرف زندہ سے توسل کا ثبوت ہوتا ہے، مردہ سے توسل کے بارے میں حدیث ساکت ہے؛ اس لیے اس حدیث کی بنا پر مردہ سے توسُّل کے ثبوت کا انکار صحیح نہیں ہے جب کہ دیگر دلائل سے مُردوں سے بھی توسُّل کا ثبوت موجود ہے؛ لہٰذا ن تمام دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہی ثابت ہوتا ہے کہ توسل بالاموات بھی درست ہے۔ اور حدیث عمر رضی اللہ عنہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرانے سے مردوں کے توسل سے دعا کی نفی نہیں ہوتی۔ (فتاوی محمودیہ مختصر ۱/۵۷۲- ۵۸۹، دار المعارف دیوبند) (فتاوی دارالعلوم: ۱۸/ ۲۶۸، مکتبہ دارالعلوم) ”ومن أدب الدعاء تقدیمُ الثناء علی اللہ تعالی والتوسّل بنبي اللہ لیستجاب“․ (حجة اللہ البالغة بحوالہ محمودیہ ۱/۵۷۲) ”وینبغي للزائر أن یُکثر من الدعاء والتوسل بہ علیہ السلام“ وزاد الخلیل في المنسک: ”ویتوسّل بہ -علیہ السلام- ویسأل اللہ تعالی بجاہہ في التوسُّل بہ“․ إلخ (شرح المواہب اللدنیة للزرقانی: ۹/۲۱۹/ بحوالہ محمودیہ: ۱/۵۷۳/ دار المعارف) ”عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسُّل في الدعوات بالأنبیاء والصالحین․․․ في حیاتہم وبعد وفاتہم“․ (المہنّد علی المفنّد بحوالہ محمودیہ: ۱/۵۷۴/ دار المعارف دیوبند) إن رجلاً یأتیکم من الیمن یُقال لہ أویس․․․ فمن لقیہ منکم، فلیستغفر لکم․ (مسلم باب من فضائل أویس القرني: ۲/۳۱۱/ اتحاد دیوبند) ”وأما بعد مماتہ، فقد روی الطبراني في الکبیر عن عثمان بن حنیف -رضي اللہ عنہ- أن رجلاً کان یختلف إلی عثمان بن عفان فيحاجة لہ․․․ فلقي ابنَ حنیف فشکی إلیہ ذلک، فقال لہ ابنُ حنیف․․․ قُل: اللہم إني أسئَلک وأتوجہ إلیک بنبیِّک محمدٍ نبي الرحمة․․․ أللہم فشفِّعہ فیَّ انطلَق الرجل․․․ فقالَ ابنُ حنیفٍ: واللہ ما کلَّمتُہ ولکنّی شہدتُ رسولَ اللہ -علیہ السلام- وأتاہ ضریرٌ فشکی إلیہ ذہاب بصرہ“ (حاشیة سنن ابن ماجة: ۸/ باب ما جاء في صلاة الحاجة․ ص: ۹۸/ رحیمیہ، دیوبند) (وفي الطبرانی): بحق نبیِّہ والأنبیاء الّذین من قبلي․ (بحوالہ محمودیہ: ۱/ ۵۸۲/ دار المعارف) وورد دعاءٌ فیہ)․ ”أسئلکَ بنور وجہِک وبحقّ السائلین علیک“․ (باقیات فتاوی رشیدیہ: ۵۷/مفتی الہی بخش اکیڈمی کاندھلہ) ”وبعد ہذا کلّہ لا أری بأسًا في التوسُّل إلی اللہ تعالی بجاہ النبي -علیہ السلام- عند اللہ تعالی حیًّا ومیِّتًا“․ (روح المعاني: ۶/۱۲۶/دار إحیاء التراث العربی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند