• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 609758

    عنوان:

    کیا انسان کو منفی یا بری فطرت کے ساتھ پیدا کیا گیا؟

    سوال:

    سوال : میرا سوال درج ذیل دو قرآنی آیات اور دو احادیث سے متعلق ہے: ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 30 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ‘‘ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ کیا آپ اس میں کسی ایسے شخص کو جگہ دیں گے جو وہاں فساد پھیلائے اور خون بہائے جب کہ ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے اور تیری پاکیزگی کا اعلان کرتے رہے؟ اللہ نے جواب دیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 17 میں شیطان کا دعویٰ ہے: "پھر میں ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں بائیں سے آؤں گا اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔ صحیح بخاری میں دو احادیث ہیں (نمبر 6529 اور 6530 فتح الباری کے نمبر کے مطابق) حدیث نمبر 6529 میں ہے کہ "ان لوگوں کی تعداد جن کو بھیجا جائے گا۔ جہنم ہر سو میں سے ننانوے ہے۔ اور حدیث نمبر 6530 میں ہے کہ "جہنم میں بھیجے جانے والوں کی تعداد ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ہے۔" اگر 99% یا 99.99% انسان جہنم میں جائیں گے تو ایسا لگتا ہے کہ انسان فنی طور پر یا فطرت سےغلط عطیات کی طرف مائل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقریباً 124,000 انبیاء بھیجے تاکہ انسان کو اس کے راستے پر چلایا جائے (شیطان صرف ایک ہے اور جسمانی طور پر لوگوں کے پاس نہیں آیا) لیکن پھر بھی انسان99.99% ظالم ہوں گے اور جہنم میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ سب کا مستقبل جانتا ہے، پھر کیا وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو منفی یا بری فطرت کے ساتھ پیدا کیا جیسا کہ تقریباً سبھی میں دکھایا گیا ہے اور ایک پروجیکٹ شروع کیا جس کی وجہ سے اس کی تخلیق کا 99.99% حصہ جہنم میں بھیج دیا جائے۔ براہ کرم مناسب حوالہ کے ساتھ وضاحت کریں اور اوپر والے سوالات کے جوابات دیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 609758

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 843-114T/B=07/1443

     آپ كو فطرت انسان پر جو اشكال ہوا ہے‏، اس سلسلےمیں مشكاۃ شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ كی روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَا مِن مولودٍ إلا یولد علی الفطرۃ‘‘ فطرۃ كی تفسیر فطرۃ اللہ سے كی گئی ہے‏، جس كا مصداق ایمان ہے‏، معلوم ہوا كہ ہر بچہ فطرۃ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح: 1/261‏، ط: فیصل) اس میں بھی كوئی شك نہیں كہ اللہ تعالی نے ہر چیز كو انسان كی تقدیر میں لكھ دیا ہے‏، یہاں تك كہ انسان كا نیك بخت‏، بدبخت‏، جنتی اور جہنمی ہونا سب لكھا جاچكا ہے‏، لیكن اس كا یہ مطلب ہر گز نہیں كہ تقدیر پر اعتماد كركے بیٹھ جائے‏، اور محنت اور عمل كرنا چھوڑ دے‏، بلكہ بندہ كے لئے حكم یہ ہے كہ وہ عمل میں سعی كرے‏، چنانچہ ایك حدیث میں ہے كہ جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے عرض كیا كہ اے اللہ كے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تو پھر عمل كیوں كریں؟ كیوں نہ ہم تقدیر پر اعتماد كركے بیٹھ جائیں‏، تو اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں‏، تم لوگ عمل اور كام نہ چھوڑو‏، عمل جاری ركھو‏، ہر ایك كے لئے وہ چیز آسان كردی گئی ہے جس كے لئے وہ پیدا كیا گیا ہے‏، لہٰذا آدمی كو ہمت سے كام لینا چاہئے‏، اور تقدیر كے بارے میں زیادہ نہ سوچنا چاہئے‏، كیونكہ تقدیر كا مسئلہ انتہائی نازك ہے‏، تقدیر كے بارے میں بحث و مباحثہ اور زیادہ غور و خوض كرنے سے انسان گمراہ ہوسكتا ہے‏، یہی وجہ ہے كہ حدیث شریف میں اس كے تعلق سے كلام كرنے كی ممانعت آئی ہے‏، (مرقاۃ: 1/253‏) حضرات صحابہ كرام ایك دفعہ گفتگو میں مشغول تھے‏، نبی پاك صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے‏، آپ نے فرمایا: كیا گفتگو كر رہے تھے‏؟ صحابہ كرام نے عرض كیا: تقدیر كے مسئلہ میں بات كررہے تھے‏، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا چہرہ مبارك غصہ سے سرخ ہوگیا‏، اور فرمایا: كیا تم اسی لئے پیدا كئے گئے ہو؟ یا میں اسی لئے بھیجا گیا ہوں‏، ہلاك ہوگئے وہ لوگ جنہوں نے اس مسئلے میں گفتگو كی‏، اس سے پتہ چلا كہ تقدیر كے بارے میں غور و خوض سے اجتناب كرنا چاہئے‏، جہاں تك آپ كی پیش كردہ حدیث نمبر (6529-6530) كا تعلق ہے اگر آپ پوری روایت ملاحظہ فرماتے تو یہ اشكال پیش نہ آتا‏، اس لئےكہ حدیث نمبر (6530) میں ہزار كی تعداد یاجوج ماجوج كی بتائی گئی ہے‏، اور مؤمنین میں سے ایك شخص جہنم میں بھیجا جائے گا‏، علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں كہ اس روایت میں اشارہ ہے كہ مذكورہ تعداد اور وعید میں یاجوج ماجوج داخل ہیں‏، وفي الفتح: قال الطیبی: فیہ إشارۃ إلی أن یأجوج ومأجوج داخلون في العدد المذكور والوعید‏، كما یدل قولہ: ربع أھل الجنۃ علی أنّ في غیر ھذہ الأمۃ أیضاً من أھل الجنۃ وقال القرطبي: قولہ: من یأجوج ومأجوج ألف أي منھم وممن كان علی الشرك مثلھم‏، وقولہ: ومنكم رجل یعني من أصحابہ ومن كان مؤمناً مثلھم‏، قلت: وحاصلہ أن الإشارۃ بقولہ: منكم إلی المسلمین من جمیع الأمم وقد أشار إلی ذلك فی حدیث ابن مسعود بقولہ: إن الجنۃ لا یدخلھا إلا نفس مسلمۃ‘‘ فتح الباری: 14/402-403‏، ط: دارالكتب العلمیۃ للنشر والتوزیع۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند