عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 608362
کیا صحابی کو عذاب قبر ہوسکتا ہے ؟
سوال : میں ایک طالب علم ہوں اور درس کے دوران چند احادیث سے یہ محسوس ہو ا کہ صحابہ رسول (رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین) کو عذاب قبر ہو رہا ہے . کیا یہ ممکن ہے کہ صحابی کو عذاب قبر ہو؟ کیا یہ صحابیت کے مقام کے خلاف نہیں ہے ؟ جن احادیث کی وجہ سے سوال پہدا ہوا ہے ان میں سے ایک محترم مفتی صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں. بخاری شریف کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر دو آدمیوں کی قبروں سے ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محسوس کیا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں، لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں قبروں میں تر تہنی گھاڑا اور فرمایا کہ امید ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تو ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی. اس حدیث کے متعلق محققین شراح فرماتے ہیں کہ یہ دونوں قبریں مسلمانوں کی تھیں، اور بقیع میں مدفون تھے اور دونوں قبریں تازہ تھیں. تو بظاہر دونوں صحابی ہونگے اور مدینہ منورہ کے باشندوں میں سے ہونگے . اسی طرح بعض شراح نے لکھا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، اس پر محققین نے رد تو فرمایا، لیکن اس جواب سے رد نہیں فرمایا کہ "حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ تو صحابی ہیں لہذاسعد رضہ اللہ تعالی عنہ کا ان دونوں میں سے ہونا نا ممکن ہے " ، البتہ اس طور پر رد فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ میں موجود تھے لہذا سعد رضی اللہ تعالی عنہ اس حدیث کے دونوں مدفون میں سے ایک نہیں ہوسکتے ہیں. حالانکہ اگر عذابِ قبر شانِ صحابیت کے خلاف ہے تو جواب بہت آسان تھا کہ صحابی ہونے کی وجہ سے نا ممکن ہے . اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ خادم بھی ہے جو جہاد میں دشمنوں کے ہاتھ انتقال کر گئے اور صحانہ مبارک بادی دینے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غالباً یہ فرمایا تھا کہ اس کو تو پہلے مال غنیمت میں چوری کی وجہ سے سزا ملے گی ۔ . کیا یہ منافق تھے یا یہ ممکن ہے کہ صحابی کو آخرت میں سزا ملے ؟ محترم مفتی صاحب اگر اس کا مفصل جواب تحریر فرمائے اور مجھے اس پریشانی سے نجات دے تو محترم مفتی صاحب کا بڑا احسان ہوگا،جزاکم اللہ۔
جواب نمبر: 608362
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 583-153T/D=06/1443
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے، جو کافروں اور بعض ان مسلمانوں کو دیا جائے گا جن سے گناہ سرزد ہوئے ہوں۔ کافر و منافق کا عذاب سخت ہوگا اور تاقیامت دائمی ہوگا۔ اور مسلمانوں کا عذاب ان کے گناہوں کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوگا، یہ عذاب قبر کسی بھی مومن کو ہوسکتا ہے، ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جو صحابی کے عذاب قبر سے استثناء پر دلالت کرے؛ اس لیے بہ ظاہر ممکن ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی صحابی سے کوئی لغزش ہوگئی ہوتو قبر ہی میں اس کی سزادے کر ان کی تطہیر کردی جائے۔ صحیحین کی ایک روایت ہے: افتتحنا خیبر ولم نغنم ذہباً ولا فضةً إنما غنمنا البقر والإبل ․․․․ الحدیث۔
اس میں ہے کہ شہید ہونے والے ایک غلام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الشملة التي أصابہا یوم خیبر من المغانم، لم تصبہا المقاسم، لتشتعل علیہ ناراً۔ یعنی- وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن، تقسیم سے پہلے مال غنیمت سے اٹھا لی تھی، اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔ (بخاری، رقم: 4234، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، 2/608، طبع ہندیہ، الجزء 17)۔ اس میں صحابی کو برزخ میں سزا ملنے کی صراحت ہے۔
عمدة القاری میں ہے: یحتمل أن یکون اشتعال النار حقیقةً بأن قصیر الشملة بعینہا ناراً، فیعذب بہا ویحتمل أن یکون المراد أنہا سبب بعذاب النار۔ (17/255، قدیم)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند