عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 606769
تقدیر کا حوالہ دے کر عمل نہ کرنا؟
عنوان : آدم علیہ سلام اور موسی علیہ سلام کے مابین مباحثہ۔
سوال : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدم اور موسیٰ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: آدم! آپ ہمارے باپ ہیں مگر آپ ہی نے ہمیں محروم کیا اور جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ آخر آدم علیہ السلام بحث میں موسیٰ علیہ السلام پر غالب آئے ۔ تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا۔ بخاری 6614۔
میرا سوال یہ ہے کہ اس حدیث سے تو آدم خود کو تقدیر کے سامنے مجبور ثابت کر رہے ہیں۔ اس سے تو جبری کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں مجبور ہے مختار نہیں۔
براہ کرم وضاحت کریں کہ آدم علیہ سلام کا شجر ممنوع کا پھل کھانا اختیاری فعل تھا یا مجبوری۔۔ اختیاری تھا تو حدیث کی کیا تشریح ہوگی۔
جواب نمبر: 606769
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 274-137T/SN=03/1443
اس حدیث کی تشریح کے تحت محدثین نے یہ اصول ذکر کیا ہے کہ تقدیر سے (یعنی ازل سے جو بات طے کی ہے اس سے) تمسک معاملہ پائے جانے سے پہلے درست نہیں ہے، جیسے ہر شخص کی قسمت میں روزی لکھ دی گئی ہے؛ مگر حدیث میں ہے: کسب الحلال فریضة بعد الفریضة (حلال روزی کمانا دوسرے درجے کا فرض ہے) پس اگر کوئی تقدیر سے تمسک کرے اور کہے میں کام نہیں کروں گا، روزی جو مقدر ہے مل کر رہے گی تو یہ اس کی بے وقوفی ہے، حکم یہ ہے کہ کام کرو، پھر کسی نے دکان کھولی؛ مگر گھاٹا پایا تو اب وہ کہہ سکتا ہے کہ میری قسمت میں روزی نہیں تھی، اب تقدیر سے تمسک درست ہے۔ اور واقعہ رونما ہونے سے پہلے تقدیر سے تمسک اس لیے درست نہیں کہ وہ بے عملی پیدا کرتا ہے اور واقعہ رونما ہونے کے بعد تمسک بندے کو تقدیر الٰہی پر راضی کرتا ہے۔ (دیکھیں: تحفة القاری شرح بخاری: 6/613، رقم: 3409، مطبوعہ: مکتبہ حجاز، دیوبند)
حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا شجرہٴ ممنوعہ کا پھل تناول کرنا اختیاری تھا، نیز تقدیر بھی بلاشبہ برحق ہے؛ البتہ بندوں کے حق میں تقدیر سے تمسک معاملہ پائے جانے سے پہلے چونکہ جائز نہیں؛ بلکہ ان پر حسب حکم شرعی عمل انجام دینا ضروری ہے؛ اس لیے اس حدیث سے اور اس جیسی دیگر احادیث سے کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند