• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 606296

    عنوان:

    نبی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ

    سوال:

    جب میں نو سال کا تھا (ابھی بالغ نہیں تھا)میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات غصے میں کہہ دیے لیکن مجھے علم نہ تھا کہ یہ مجھے دائرہ اسلام سے خارج کردے گا یہ اس کا وبال کیا ہے میں ایک مسلم کی طرح زندگی گزارتا رہا جب بالغ ہوا تو مجھے لگا کے میں بالغ نہیں تھا اس لیے مجھے ان جملوں کا حساب نہیں دینا ہوگا لیکن جب میں سولہ سال کا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے تحقیق کرنی چاہیے ،تحقیق کرنے پر مجھے معلوم ہوا کے فقہاء اربعہ کا اس معاملے میں اختلاف رہا ہے اب میں نے توبہ اور تجدید ایمان کرلی ہے کیا میری توبہ قبول ہوگی؟مجھے چاروں ائمہ کے حوالے سے جواب عنایت فرمائیں،میں بہت پریشان ہوں،میرے مسئلے کو حل فرمائیں۔

    جواب نمبر: 606296

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 164-50T/D=02/1443

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین اور گستاخی انتہائی سنگین جرم ہے، اس سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے؛ لیکن اگر کسی مسلمان سے یہ گناہِ عظیم صادر ہوجائے؛ پھر متنبہ ہونے پر نادم ہو اور اللہ تعالی کے سامنے روئے گڑگڑائے اور سچے دل سے توبہ وتجدید ایمان کرے تو ائمہ احناف کی تحقیق کے مطابق ا س کی توبہ قبول ہوتی ہے؛ لہٰذا آپ نے اگر سچے دل سے توبہ اور تجدید ایمان کرلی ہے تو آپ کی توبہ عند اللہ ضرور قبول ہوگی، آپ پریشان نہ ہوں۔ ․․․․․․ مقتضی کلام الشفاء وابن أبي جمرة في شرح مختصر البخاری في حدیث ”إن فریضة الح أدرکت أبي“ إلخ أن مذہب أبي حنیفة والشافعی حکمہ حکم المرتد، وقد علم أن المرتد تقبل توبتہ کما نقلہ ہنا عن النتف وغیرہ، فإذا کان ہذا في ساب الرسول - صلی اللہ علیہ وسلم - ففی ساب الشیخین أو أحدہما بالأولی، فقد تحرر أن المذہب کمذہب الشافعی قبول توبتہ کما ہو روایة ضعیفة عن مالک وأن تحتم قتلہ مذہب مالک، وما عداہ فإنہ إما نقل غیر أہل المذہب أو طرة مجہول لم یعلم کاتبہا، فکن علی بصیرة فی الأحکام، ولا تغتر بکل أمر مستغرب وتغفل عن الصواب، واللہ تعالی أعلم۔ اھ۔ وکذلک قال الحموی فی حاشیة الأشباہ نقل عن بعض العلماء: إن ما ذکرہ صاحب الأشباہ من عدم قبول التوبة قد أنکرہ علیہ أہل عصرہ وأن ذلک إنما یحفظ لبعض أصحاب مالک کما نقلہ القاضي عیاض وغیرہ۔ أما علی طریقتنا فلا۔ اھ۔ وذکر في آخر کتاب (نور العین) أن العلامة النحریر الشہیر بحسام جلبی ألف رسالة في الرد علی البزازی وقال في آخرہا: وبالجملة قد تتبعنا کتب الحنفیة فلم نجد القول بعدم قبول توبة الساب عندہم سوی ما فی البزازیة، وقد علمت بطلانہ ومنشأ غلطہ أول الرسالة۔ اھ۔ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/374، کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب مہم في حکم سابّ الأنبیاء،: مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند