• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 606284

    عنوان:

    عورت کے لیے گاڑی چلانا کیسا ہے؟

    سوال:

    پہلے زمانے عورتیں گھوڑے وغیرہ چلا یا کرتی تھی اسی طرح کیا اب فی الحال دور ترقی یافتہ دور ہے تو کیا عورتیں کا وغیرہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 606284

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:171-146/L=2/1443

     عورتوں کے لئے اصل حکم شرع یہ ہے کہ وہ گھر میں رہے اور اندرونِ خانہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرے، عورت کا بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا پسندیدہ نہیں،عورتوں کے گاڑی چلانے میں مردوں کی مشابہت کے ساتھ ساتھ دیگر مفاسد بھی پائے جاتے ہیں ؛اس لئے عورتوں کو شوقیہ بلا ضرورت گاڑی چلانے سے احتراز کرنا ضروری ہے؛ تاہم اگر واقعی کوئی دینی یا دنیوی ضرورت پیش آجائے مثلا: شوہر یا بچہ بیمار ہوجائے اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو جو مریض کو ہسپتال لے کر جائے وغیرہ تو ایسی مجبوری میں عورت خود گاڑی چلاکر ہسپتال وغیرہ لے جاسکتی ہے ، خیرالقرون میں بعض عورتوں کا گھوڑ سواری کرنا وہ شرعی ضرورت کی وجہ سے تھا پس اگر اب بھی ایسی کوئی واقعی ضرورت ہو تو گاڑی چلانے کی گنجائش ہوگی۔

    لاترکب مسلمة علی سرج للحدیث ہذا لو للتہلی ولولحاجة غزو او حج اومقصد دینی او دنیوی لابد لہا منہ فلا باس بہ (درمختارمع رد المحتار:9: 606:ط زکریا)۔-ولا ترکب امرأة مسلمة علی السرج لقولہ - علیہ الصلاة والسلام - ”لعن اللہ الفروج علی السروج“ ہذا إذا رکبت متلہیة أو متزینة لتعرض نفسہا علی الرجال فإن رکبت لحاجة کالجہاد والحج فلا بأس بہ.(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری 8/ 215) (قولہ للحدیث) وہو ”لعن اللہ الفروج علی السروج“ ذخیرة. لکن نقل المدنی عن أبی الطیب أنہ لا أصل لہ اہ. یعنی بہذا اللفظ وإلا فمعناہ ثابت، ففی البخاری وغیرہ لعن رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال وللطبرانی أن امرأة مرت علی رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - متقلدة قوسا فقال: لعن اللہ المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء " (قولہ ولو لحاجة غزو إلخ) أی بشرط أن تکون متسترة وأن تکون مع زوج أو محرم (قولہ أو مقصد دینی) کسفر لصلة رحم ط(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 423)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند