• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 606067

    عنوان:

    اگر معلوم ہوجائے کہ پیٹ میں لڑکی ہے تو کیا لڑکے کے لیے دعا کرسکتے ہیں؟

    سوال:

    میرا ایک سوال ہے کہ اللہ تعالی نے شادی کے ۹سال کے بعد وہ بھی بہت علاج کے بعد مجھے اولاد کی خوشخبری دی ہے۔ میرا پورا یقین ہے کہ اولاد صرف اللہ ہی دے سکتے ہیں کوئی علاج کوئی ڈالٹر کچھ نہیں کر سکتا۔ میرا الحمدللّٰہ آٹھواں مہینہ چل رہا ہے سب ٹھیک ہے مجھے ڈاکٹر نے پانچویں مہینے میں بیٹی بتائی ہے اس کے بعد بھی ایک دو دفعہ بیٹی کا بتایا ہے۔ الحمدللّٰہ میں اللہ کی رضا میں راضی ہوں کہ وہ مجھے صاحب اولاد کر دیں۔ مگر مجھے پورا یقین تھا کہ اللہ مجھے بیٹے سے نوازیں گے میرے دل میں یہ کسک رہ گئی ہے میں نے بہت وظیفے کیے الحمدللّٰہ والدین کا گھرانہ بہت مذہبی ہے تبلیغی جماعت سے تعلق ہے ہر اچھی بری بات کا علم بھی ہے۔ مگر میں اب بھی بیٹے کے لیے دعا کر رہی ہوں میں سوچتی کہ سب اللہ کے اختیار میں ہے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں شائد ultrasound ٹھیک نہ بتاتا ہو۔ کیا میرا اب بھی دعا کرنا ٹھیک ہے اللہ ناراض تو نہیں ہوں گے؟میرے سسرال میں صرف بیٹیاں ہی ہیں سب کی دو دو کوئی لڑکا نہیں۔ میں کسی سے یہ بات share نہیں کر سکتی کہ سب ڈانٹیں گے۔میں نے بہت مشکل وقت کاٹا بہت بہت صبر کیا اللہ کی رضا میں راضی رہی بلکہ اللہ کے اور قریب آئی اتنے سالوں میں۔میں کیا کروں نہ shopping کرنے کو دل کر رہا بلکہ جن کے بیٹے ہیں ان کو دیکھ کر عجیب محسوسات ہوتے ہیں کہ اللہ نے ان کو بھی تو دیا ہے۔میں اللہ کی نارضگی سے بھی بچنا چاہتی ہوں۔

    جواب نمبر: 606067

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 40-4T/D=01/1443

     اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہنا ایمان کا حصہ ہے اور اس کے فیصلہ پر ناگواری محسوس کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔

    آدمی اپنی خواہش و مرضی کے مطابق لڑکے عطا ہونے کی دعا کرسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں پھر بھی دل میں یہی خیال رکھے کہ اللہ تعالی کا جو فیصلہ ہوگا اس پر ہم راضی ہیں خواہ لڑکا عطا ہو یا لڑکی۔

    پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں ڈاکٹر سے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب جب کہ لڑکی ہونا ظاہر ہوا (گو یہ یقینی نہیں ہے) لیکن اس علم کے ساتھ لڑکے کی دعا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اللہ کے فیصلہ سے (جو اگر لڑکی ہکا ہوا) راضی نہیں ہیں اسے اچھا نہیں سمجھ رہی ہیں۔ اس عقیدہ سے اپنے کو بچانے کی ضرورت ہو۔

    بس آپ یہ دعا کیا کریں اے اللہ! جو میرے لئے بہتر ہو وہ عطا فرمادیں اور جو کچھ عطا فرمائیں گے لڑکا یا لڑکی اسے نیک دیندار سعادت مند اور کامل ایمان و یقین والا بنائیں۔

    ارشاد خداوندی ہے: یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ یَہَبُ لِمَنْ یَشَآءُ اِنَاثًا وَیَہَبُ لِمَنْ یَشَآءُ الذُّکُوْرَ․ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَاِنَاثًا (آیت: 49-50)۔

    یعنی انسان کی تخلیق میں کسی کے ارادہ و اختیار بلکہ علم و خبر کا بھی کوئی دخل نہیں اور کسی کا دخل کیا ہوتا انسان کے ماں باپ جو اس کی تخلیق کا ظاہری سبب بنتے ہیں خود ان کے ارادہ و اختیار کا بچہ کی تخلیق میں کوئی دخل نہیں یہ صرف اللہ تعالی کا کام ہے کہ کسی کو اولاد لڑکیاں دیتا ہے اور کسی کو نرینہ اولاد لڑکے بخش دیتا ہے اور کسی کو لڑکے لڑکیاں دونوں عطا فرمادیتا ہے اور کسی کو بالکل بانجھ کردیتا ہے کہ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند