عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 605888
”مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا، ہم نے اُسے ہندو یا مسلمان بنایا“ کیا اس طرح کے اشعار قابل اعتراض ہیں؟
ایک مفتی امام نے ایک جلسہ میں قابل اعتراض دیا ہے۔اس کا ویڈیو میڈیا میں وارل ہے۔اس ویڈیو میں وہ رام اور کرشنا کو ولی بتا رہے ہیں اور رام کے بار بار جنم کی بات کر رہے ہیں اور بول رہے ہیں کہ رام کے بغیر آپ کا دکھ کون ھرے معنی دور کرے گا۔ان کے اس ویڈیو سے شرک کی بو آتی ہے۔جب ان مفتی صاحب سے پوچھا گیا تو بولے کہ وہ امیرخسرو کی ایک نظم پڑھ رہے تھے۔اور وہ ہندوستان کی تاریخ کا حوالہ دے رہے تھے۔کیا انھیں ایسی بات پڑھنی چاہیے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ھوخواہ وہ کسی کی بھی ہو۔آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اس ویڈیو کو غور سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کی امامت میں نماز ھو رہی ہے ابھی بھی۔اگر یہ شرک کے دائرے میں آتا ہے تو فورن ایک شرعی حکم فتوی جاری کریں تاکہ نماز جائز ہو۔ان ویڈیو کا لنک آپ کے زیر ثانی ہے۔
جواب نمبر: 605888
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1-16T/N=2/1443
سوال میں جن ویڈیوز کی لنکس ذکر کی گئی ہیں، وہ سنی گئیں، بلاشبہ مفتی (سعد النجیب) نے اپنے بیانات میں قابل اعتراض اشعار یا نظمیں پڑھی ہیں، ان میں سے بعض اشعارواضح طور پر تناسخ ارواح (آوا گون) کے ہندوانہ عقیدے پر مبنی ہیں، جو بلاشبہ کفریہ اور غیر اسلامی عقیدہ ہے، جیسے: ساحر لدھیانوی کا یہ شعر:
”جب جب رام نے جنم لیا، تب تب پایا بن باس“۔
اور بعض اشعار میں اسلام کے صحیح وبرحق اور آسمانی مذہب ہونے کا انکار کیا گیا ہے اور ہندومت کی طرح اسے بھی انسانوں کا بنایا ہوا مذہب قرار دیا گیا ہے، جیسے: ساحر لدھیانوی کا یہ شعر:
”مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا، ہم نے اُسے ہندو یا مسلمان بنایا“۔
نیز موصوف نے ساحر لدھیانوی کا یہ شعر بھی پڑھا ہے:
”قرآن جس میں نہ ہو، وہ مندر تیرا نہیں ہے ، گیتا نہ ہو جس میں، وہ دھرم تیرا نہیں“۔
اور ایک یہ شعر بھی پڑھا ہے:
”اچھا ہے ابھی تک تیرا کچھ نام نہیں ہے، تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے“۔
واضح ہو کہ ساحر لدھیانوی کی کلیات میں ایک سے زائد نظمیں غیر اسلامی عقائد پر مبنی ہیں، جیسے:
”تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا الخ“(کلیات ساحر، ص: ۵۰۱، ۵۰۲)۔
اور ”کعبے میں رہو یا کاشی میں، نسبت تو اسی کی ذات سے ہے، تم رام کہو کہ رحیم کہو، مطلب تو اسی کی بات سے ہے، یہ مسجد ہے ، وہ بت خانہ، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو، مقصد تو ہے دل کو سمجھانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو الخ“ (حوالہ بالا، ص: ۴۸۳) وغیرہ۔
اسی طرح مفتی صاحب موصوف کے پڑھے ہوئے درج ذیل اشعار بھی سخت قابل اشکال ہیں :
”رام بن رام بن(رام بنا) دکھ کون ہَرے(یعنی: دور کرے)، برکھا بن برکھا بن (بَرکھا بن) ساگر کون بھرے، لچھمی بن آدر کون کرے، ماتا بن بھوجن کون دھرے “(فیروز اللغات، ص: ۶۹۹، جو محض بیان لغت کی کتاب ہے)۔
ان اشعار میں واضح طور پر ہندوٴوں کے عقائد باطلہ اور مذہبی دیوتاوٴں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اور یہ سب اشعار مفتی صاحب نے ان اشعار کے مضامین کی تصدیق کے طور پر پڑھے ہیں، تردید وغیرہ کے لیے نہیں پڑھے ہیں؛ جیسا کہ ویڈیوز سے ظاہر و واضح ہے۔
نیز مفتی صاحب اس طرح کے اشعار ،بھجن کے طرز ولہجہ میں پڑھتے ہیں، جو ہندوٴوں کی مذہبی مشابہت کی بنا پر بلاشبہ ناجائز ہے ۔
اور رام اور کرشنا کو بلا دلیل شرعی قطعیت کے ساتھ یا قطعیت کے انداز میں ولی (اللہ پر ایمان رکھنے والا اللہ کا دوست) کہنا بھی درست نہیں اور بزرگوں کے اقوال یا مکاشفات کی بنا پر محض احتمالی طور پر کہا جاسکتا ہے اور وہ بھی صرف ضرورت پر،اور عوام کے مجمع میں نہیں؛
لہٰذا مفتی صاحب موصوف کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں اس طرح کی سب چیزوں سے سچی پکی توبہ کریں اور ایمان ونکاح کی بھی تجدید کریں اورآیندہ تقریر وبیانات میں اس طرح کی چیزوں سے کلی پرہیز کریں، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائیں اور ہم سب کے ایمان اور اعمال صالحہ کی حفاظت فرمائیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند