• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 605588

    عنوان:

    مسجد كی جماعت ترك كرنا؟

    سوال:

    سوال : ہمارے محلے میں تقریباً 160کے قریب گھرانے ہیں اور جامع مسجد بھی ہے محلے میں ہی اور قاری صاحب بھی موجود ہیں قاری صاحب ہمارے ضلع کے رہنے والے نہیں ہیں عرصہ اٹھارہ سال سے مسجد میں امامت اور تدریس کے سلسلے سے وابستہ ہیں ۔کچھ نہ گزیر وجوہات کی وجہ سے محلے کے کچھ لوگوں نے قاری صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کردیا ہے کہا ہے کہ اگر قاری صاحب تبدیل ہو جاتے ہیں تو نماز مسجد میں ادا کرسکتے ہیں اور مسجد کے سامنے مدرسے میں باقاعدہ اذان اور نماز ادا کرنا شروع کردی ہے مسجد اور مدرسے کے دروازے بھی آمنے سامنے ہیں دونوں طرف کے لوگ ایک ہی فقہ سے تعلق رکھتے ہیں پوچھنا یہ تھا کہ امن کیسے ہوسکتا ہے دونوں میں سے کس کی نماز ہو جاتی ہے کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک گروپ نماز کروا رہا ہوتا ہے اور دوسرا گروپ اذان دینا شروع کردیتا ہے سپیکر میں اذان دینے سے آواز بھی بلند ہوتی ہے جو لوگ مدرسے میں نماز ادا کرتے ہیں ان کی منت سماجت بھی کی ہے اس معاملے میں کہ نماز مسجد میں ادا کریں وہ کہتے ہیں اس امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی اب آپ ہی بتا دیں اس مسئلے کا حل کس طرح ہوگا؟

    جواب نمبر: 605588

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1140-287T/D=12/1442

     (۱) نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت موٴکدہ قریب بواجب ہے اس کے لئے مسجد حاضر ہونے اور باجماعت وہاں نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں بلاعذر شرعی کے مسجد کی جماعت ترک کرنا اپنے کو بڑی فضیلتوں سے محروم کرنا ہے۔

    (۲) جن لوگوں نے مسجد کی جماعت ترک کیا اور امام مقرر کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا کسی مستند دارالافتاء سے مسجد کی جماعت ترک کرنے کا فتویٰ حاصل کیا تھا۔

    (۳) امام سے نفرت کی بناپر مسجد کی جماعت ترک کرنا سخت مکروہ ہے۔ قال فی الدر: ․․․․․ وان ہو احق لا والکراہة علیہم (ج: 2/297، الدر مع الرد)

    (۴) حدیث میں ہے کہ لا صلاة لجار المسجد الا فی المسجد۔ مصنف ابن ابی شیبة: 3/195، رقم الحدیث: 3488۔ جماعت کا وجوب مسجد کی جماعت سے پورا ہوگا۔ گھر یا مدرسہ کی جماعت سے یہ وجوب ادا نہ ہوگا۔ قال فی اعلاء السنن: إتیان المسجد أیضا واجب کوجوب الجماعة لمن صلاہا بجماعة فی بیتہ اتی بواجب وترک واجباً آخر ․․․․․ فالصحیح ان الجماعة واجبة مع وجوب اتیانہا فی المسجد ومن اقامہا فی البیت وہو یسمع النداء فقد اساء واثم ․․․․․․

    عن ابن عباس قال من سمع حی علی الفلاح فلم یجب فقد ترک سنة محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال فی اعلاء السنن: دلالتہ علی وجوب الجماعة مع وجوب اتیان المسجد ظاہرہ لان اجابة الاذان انما ہی باقامة الجماعة فی المسجد۔ اعلاء السن: 4/188۔

    ان عبارات سے معلوم ہوا کہ اصل حکم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا ہے بغیر عذر شرعی کے مسجد کی جماعت ترک کرنا گناہ ہے اور بڑی فضیلتوں سے محرومی ہے نیز جس نے مسجد کے علاوہ کسی جگہ جماعت کی تو اس نے ایک واجب (جماعت) کو پورا کرلیا لیکن دوسرے واجب حضور فی المسجد کو ترک کردیا۔

    پس ان لوگوں کو چاہئے کہ غلط فہمی دور کرکے مسجد میں حاضر ہونا شروع کردیں اور اگر امام کے اندر کوئی کمی ہے تو مسجد کی منتظمہ کمیٹی کو چاہئے کہ علماء کے مشورہ سے اس مسئلہ کو حل کریں۔

    اذان کی اجابت جو واجب ہے وہ مسجد کے اذان کی ہے دوسری جگہ کے اذان کی نہیں لہٰذا مسجد کی اذان اور اس کی جماعت کا مقابلہ مدرسہ کی اذان و جماعت سے کرنا درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند