• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 602605

    عنوان:

    کیا ایسے عقیدوں کا معلوم ہونا ضروری ہے جیسے اللہ عرش پر ہے ، اللہ جسم، زمانہ، جہت اور جگہ سے پاک ہے

    سوال:

    ۱․ کیا ایسے عقیدوں کا معلوم ہونا ضروری ہے کہ اللہ عرش پر ہے ، اللہ جسم، زمانہ، جہت اور جگہ سے پاک ہے ․ کیا ان چیزوں کی معلومات ہوئے بغیر بھی کوء ایمان والا ہو سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو اس طرح سے تو بہت سارے لوگ اسلام سے باہر ہیں․ ۲․ کیا اللہ کسی خاص جگہ پر ہونے سے پاک ہے ؟ کیا اس چیز کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ؟ اللہ کے زمانے سے پاک ہونے کا مطلب تفصیل سے بتایئے ․ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پر زمانے کا کوء اثر نہیں پڑتا․ وہ ہمیشہ سے جیسا تھا ویسا ہی رہے گا․ اور کوء مطلب ہو تو وہ بھی بتا دیں ۳․ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ ہیں، آنکھ ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں․ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ جسم سے پاک ہے ․ کیا یہ دونوں باتیں صحیح ہیں؟ اصل میں مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا صحیح ہے اس لئے میں نے اپنا عقیدہ اس معاملے میں کء بار بدلا․ میں کبھی کہتا کہ اللہ جسم سے پاک ہے ․ اور کبھی کہتا کہ اللہ کا ہاتھ ہے ، آنکھ ہیں مگر اس کی شان کے مطابق ہیں․ کیا اس صورت میں میرا ایمان سلامت ہے ؟ ۴․ کیا اگر کوء ایک بات کو سہی اور دوسری کو غلط مانے تو اس کا ایمان سلامت ہے ؟ کیوں کہ شروع میں مجھے ایک سہی اور دوسرا غلط لگتا تھا․ ۵․ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جنھیں متشابہات میں سے کہا جاتا ہے ․ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ان آیات کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہئے اور زبان سے کیا بولنا چاہئے ؟ مثال سے سمجھائیں․ کوء حدیث یا آیت ایسی ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ پہلے آسمان پر آ جاتا ہے ․ اس طرح کی احادیث اور آیات کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا چاہئے اور زبان سے کیا بولنا چاہئے ؟

    جواب نمبر: 602605

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:484-419/N=7/1442

     (۱): اگر کسی کو تمام عقائد کی تفصیلات معلوم نہ ہوں تو مجمل ایمان بھی کافی ہے، یعنی: اللہ تعالی پر ایمان لانا جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفات کے ساتھ ہے اور اس کے تمام احکام قبول کرنا۔

    (۲):جب آدمی کا یہ ایمان ہوگا کہ اللہ تعالی کسی کے مشابہ نہیں اور ہر قسم کی احتیاج سے پا ک ومنزہ ہیں تو وہ اللہ تعالی کومکان، زمان اور جہت سے بھی پاک یقین کرے گا، باقی عامی کو مزید تفصیلات میں نہیں جانا چاہیے۔

    (۳): جی ہاں! دونوں باتیں صحیح ہیں اور دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    (۴): غلط فہمی کی صورت میں کفر کا حکم نہ ہوگا۔

    (۵):متشابہات کے سلسلے میں اہل السنة والجماعة کی دو رائے ہیں؛ ایک: تنزیہ مع التفویض، یعنی: مخلوق کی مشابہت سے اللہ تعالی کو پاک ومنزہ قرار دیتے ہوئے ان الفاظ اور اوصاف کی حقیقت اور کیفیت علم الہی کے حوالہ کرنا، یہ سلف کامسلک ہے اور اسلم راستہ یہی ہے، اور دوسری رائے ہے: تنزیہ مع التأویل ، یعنی: مخلوق کی مشابہت سے اللہ تعالی کو پاک ومنزہ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی کی شایان شان درجہ احتمال میں کوئی مناسب معنی مراد لینا، جیسے: آسمان پر نزول فرمانے کا مطلب: اللہ کی خاص رحمت کا نازل ہونا۔

    فمذھب السلف التسلیم والتفویض مع التنزیہ، وأرباب التأویل من الخلف یقولون:…وضع القدم علی الشيء مثل للروع والقمع، فکأنہ قال: یأتیھا أمر اللّٰہ، فیکفیھا من طلب المزید ویدل علی ھذا المعنی قولہ: ”فیضع الرب قدمہ علیھا“ ولم یقل فیھا کذا قالہ شارح المصابیح۔ ……، وفي شرح السنة: القدم والرجل المذکوران في ھذا الحدیث من صفات اللّٰہ المنزھة عن التکییف والتشبیہ، وکذلک کل ما جاء من ھذا القبیل في الکتاب أوالسنة کالید والأصبع والعین والمجیٴ والإتیان والنزول، فالإیمان بھا فرض والامتناع عن الخوض فیھا واجب فالمھتدي من سلک فیھا طریق التسلیم، والخائض فیھا زائغ والمنکر معطل والمکیف مشبہ، تعالی اللہ عما یقول الظالمون علواً کبیراً، لیس کمثلہ شیٴ وھو السمیع البصیر انتھی، وھو الموافق لمذھب الإمام مالک ولطریق إمامنا الأعظم علی ما أشار إلیہ في الفقہ الأکبر، فالتسلیم أسلم، واللہ تعالی أعلم (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، کتاب أحوال القیامة وبدء الخلق، باب خلق الجنة والنار، الفصل الأول، ۱۰: ۳۵۸، ۳۵۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند