• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 600319

    عنوان: تنہا عورتوں کی نماز باجماعت  اور ان كی امامت

    سوال: السلام علیکم جی مفتی صاحب عرض یہ کرنی ہے کہ عورت کی نماز باجماعت تنہاں گھر میں یا مدرسہ میں کیا حکم ہے چوں کہ آپ کے ویب سائٹ پر تروایح کی باجماعت تنہاں نماز پڑہنے سے ثواب کم ہوجاتا ہے اور یہ مکروہ تحریمی ہے تو یہ فرض نماز کے بارے میں بہی یہی حکم ہے جب کہ فتاوی اللجنت الدائمہ میں عورت کو گھر میں باجماعت نماز پڑھنا افضل قرار دیا ہے اور مجموع فتاوی ابن باز میں دونوں طرح افضل ہے اور حدیث میں بہی ہے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہ حوالے سے کہ وہ عورت کی امامت کرتی تھیں اگر جائز ہے تو عورت درمیان میں مقتدیہ کے برابر میں کھڑے ہوں گی یا تہوڑا آ گے بڑھ کر جی حضرت تراویح میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات تراویح کے بارے میں کوئ صحیح حدیث جو غیر مقلد کو جواب دے سکیں

    جواب نمبر: 600319

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:95-45T/N=4/1442

     (۱):نماز باجماعت مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں اور صرف عورتوں کی جماعت، جس میں امام بھی عورت ہو، گھر یا مدرسہ کہیں بھی مکروہ تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا وتر یا تراویح ۔ احناف کا مسلک یہی ہے۔ اور فتاوی اللجنة الدائمہ اور مجموع فتاوی ابن باز، یہ دونوں حنبلی مسلک والوں کے فتاوی ہیں۔ اور حضرت ام سلمہ کا عمل ابتدائے اسلام پر محمول ہے۔ اور اگر خواتین کراہت تحریمی کے باوجود فرض، واجب یا تراویح میں تنہا جماعت کرتی ہیں تو امام عورت ، صف کے درمیان معمولی سا آگے ہوکر کھڑے ہوگی، مردوں کی طرح صف کے آگے نہیں کھڑی ہوگی۔

    (و) یکرہ تحریماً (جماعة النساء) ولو في التراویح إلخ (فإن فعلن تقف الإمام وسطھن) فلو قدمت أثمت (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲:۳۰۵، ۳۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۵۴۶، ۵۴۷ - ۵۴۹، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”ویکرہ تحریماً“: صرح بہ فی الفتح والبحر، قولہ: ”ولو في التراویح“: أفاد أن الکراھة في کل ما تشرع فیہ جماعة الرجال فرضاً أو نفلاً (رد المحتار)۔

    قولہ: ”فلو تقدمت أثمت“: أفاد أن وقوفھا وسطھن واجب کما صرح بہ في الفتح وأن الصلاة صحیحة وأنھا إذا توسطت لا تزول الکراھة، وإنما أرشدوا إلی التوسط؛ لأنہ أقل کراھیة من التقدم کما في السراج، بحر (المصدر السابق)۔

    وکذا المرأة تصلح للإمامة في الجملة حتی لو أمت النساء جاز، وینبغي أن تقوم وسطھن لما روي عنعائشة أنھا أمت نسوة في صلاة العصر وقامت وسطھن، وأمت أم سلمة نساءً وقامت وسطھن؛ إلا أن جماعتھن مکروھة عندنا وعند الشافعي مستحبة کجماعة الرجال ویروي ذلک أحادیث؛ لکن تلک کانت في ابتداء الإسلام، ثم نسخت بعد ذلک (بدائع الصنائع، کتاب الصلاة، باب من یصلح للإمامة، ۱: ۳۸۷، ۳۸۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): رکعات تراویح کی تعداد کے سلسلے میں فتاوی رحیمیہ اور محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا رسالہ: ”رکعات تراویح“ ملاحظہ فرمائیں اور ایک سلام کے ساتھ تین رکعت نماز وتر کے سلسلہ میں سنن نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہ وغیرہ کی روایت موجود ہے۔

    عن عائشة  ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر“ رواہ النسائي (۱: ۲۴۸) وسکت عنہ، وفي آثار السنن (۲: ۱۱): إسنادہ صحیح، أخرجہ الحاکم فی المستدرک (۱: ۲۰۴) بلفظ: ” قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم فی الرکعتین الأولیین من الوتر“ وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین، وأقرہ علیہ الذھبي في تلخیصہ وقال: علی شرطھما اھ، وعنھا قالت: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث، لا یسلم إلا في آخرھن “، أخرجہ الحاکم (۱: ۲۰۴) واستشھد بہ وقال: وھذا وتر أمیر الموٴمنین عمر بن الخطاب، وعنہ أخذہ أھل المدینة وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ فھو حسن وکذا نقلہ الزیلعي في نصب الرأیة (۱: ۲۷۷) بلفظ : ”لا یسلم“ وکذا نقلہ الحافظ فی الدرایة (۱۱۴) بلفظ: ”لا یسلم إلا في آخرھن“ وکلاھما عزاہ إلی الحاکم (إعلاء السنن، أبواب الوتر، باب الإیتار بثلاث موصولة وعدم الفصل بینھن بالسلام الخ،۶: ۲۸- ۳۰، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشي)۔

    عن أبي بن کعب قال: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی الوتر ب ﴿سبح اسم ربک الأعلی﴾، وفی الرکعة الثانیة ب ﴿ قل یا أیھا الکافرون﴾، وفی الثانیة ب ﴿قل ھو اللہ أحد﴾، ولا یسلم إلا في آخرھن ویقول یعني: بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثاً “ أخرجہ النسائي (۱: ۲۴۹) وفي نیل الأوطار (۲: ۲۷۹): رجالہ ثقات إلا عبد العزیز بن خالد وھو مقبول اھ، وفیہ أیضاً (۲: ۲۸۷): قال العراقي: إسنادہ صحیح، وفي آثار السنن:إسنادہ حسن (۲: ۱۰) اھ، وللدار قطني (۱: ۱۷۵) في ھذا الحدیث بإسناد صحیح: ”وإذا سلم قال: سبحان الملک القدوس ثلاث مرات یمد بھا صوتہ فی الأخیرة ، یقول: رب الملائکة والروح “ اھ ، عن المسور بن مخرمة قال: ”دفنا أبا بکر لیلاً فقال عمر: إني لم أوتر فقام وصففنا وراء ہ فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرھن“ أخرجہ الطحاوي (۱: ۱۷۳)، وفي آثار السنن: إسنادہ صحیح (۲: ۱۲)، عن عبد الرحمن بن یزید عن عبد اللہ بن مسعود قال: ”الوتر ثلاث کوتر النھار صلاة المغرب“ رواہ الطحاوي (۱: ۱۷۳) وفي آثار السنن (۲: ۱۲): إسنادہ صحیح اھ، قلت: وأخرجہ محمد في موطئہ (ص ۱۴۶) بسند رجالہ رجال مسلم بلفظ: ”الوتر ثلاث کصلاة المغرب“ (المصدر السابق، ص ۴۲- ۴۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند