• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 600293

    عنوان: دعاء میں وسیلہ اختیار کرنا كیسا ہے؟

    سوال:

    ایک صاحب نے یہ تحریر پوسٹ کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ وسیلہ کے حوالہ سے شرعی نظریہ کیا ہونا چاہیے ؟ مخالفین کہتے ہیں وسیلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔اور اگرکتاب شیم الحبیب PDFمیں مل جائے تو نوازش ہوگی۔ جزاک اللہ تحریر یہ ہے حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میں عرض کرتے ہوئے تھانوی صاحب لکھتے ہیں۔ ترجمہ:دستگیری کیجئے میرے نبی ﷺ کش مکش میں تم ہی ہو میرے ولی بجز تمھارے ہے کہاں میری پناہ فوج کلفت مجھ پر آ غالب ہوئی ابن عبد اللہ زمانہ ہے خلاف اے میرے مولا خبر لیجئے میری (شیم الطیب ترجمہ شیم الحبیب،ص145)

    جواب نمبر: 600293

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 138-138/B=03/1442

     اہل سنت و جماعت کے یہاں دعاء میں وسیلہ اختیار کرنا جائز ہے۔ احادیث میں نیک اعمال کے واسطہ سے انبیاء کرام کے واسطے سے، آسمانی کتابوں کے واسطہ سے، اسماء ثمانیہ کے نام سے، حضرت جبرئیل ، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل کے واسطے سے، اسماء حسنیٰ کے واسطے سے، اسم اعظم کے واسطہ سے بیشمار دعائیں منقول ہیں۔ وہ دعائے ماثورہ جو احادیث میں آئی ہیں بہت سے علماء نے انھیں اکھٹا جمع کر دیا ہے عربی میں بھی، اردو میں بھی۔ اُن سے روز روشن کی طرح معلوم ہو جائے گا کہ بیشک دعا میں وسیلہ اختیار کرنا ثابت ہے۔ جمہور امت کا یہی مسلک ہے، ساتویں صدی میں صرف علامہ ابن تیمیہ نے وسیلہ کا انکار کیا۔ اسی طرح چھ سات مسئلے اور ہیں جن میں ابن تیمیہ جمہور علماء حق کے مسلک سے ہٹ گئے ہیں۔ جن کا علامہ شبلی وغیرہ نے بہت معقول اور مدلل جواب دیا ہے، انھیں ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کے سارے شکوک و شبہات دُور ہو جائیں گے۔

    کتاب شیم الحبیب تلاش بسیار کے بعد کہیں سے مل نہ سکی۔ آپ اس کے لئے حضرت مولانا نجم الحسن صاحب خانقاہ تھانہ بھون، ضلع مظفر، یوپی۔ یا مولانا نور الحسن صاحب راشد ، مفتی الٰہی بخش اکیڈمی، قصبہ کاندھلہ، ضلع مظفر نگر کو لکھ کر معلومات حاصل کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند