• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 59314

    عنوان: كیا اللہ تعالی صفت سمع وبصر وغیرہ کے ساتھ متصف ہیں

    سوال: کیا میرا یہ عقیدہ بھی ٹھیک ہے جس طرح اللہ دیکھتا ہے ، جس طرح اللہ سنتا ہے کائنات میں کوئی انسان یاخاص حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی اور نبی یا کوئی دوسری ذات فرشتے ، جنات ،حیوانات اس طرح نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے اللہ کی صفات کا علم صرف اللہ جانتا ہے اس کی ہر صفت اس کے ساتھ مخصوص ہے اور اس جیسی صفت دیکھنے کی یا سننے کی دنیا جہاں میں کسی اور میں نہیں؟مخلوقات جن میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں تمام انبیا بھی ہیں سب کا دیکھنا یا سننا یا ہاتھ اللہ کی صفت سے بالکل الگ ہے البتہ انبیا کی آنکھ مبارک بہت کچھ دیکھتی تھیں جو کہ عام انسان کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن اللہ کی جو صفت دیکھنے کی یا سننے کی ہے تمام انبیا بشمول حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا فرشتوں کی صفت سے بھی بلکل الگ ہے جس کا علم وہ خود جانتا ہے ؟

    جواب نمبر: 59314

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 780-643/D=7/1436-U اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی صفت سمع وبصر وغیرہ کے ساتھ متصف ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سنتے بھی ہیں دیکھتے بھی ہیں؛ لیکن اللہ تعالی کی یہ صفات مخلوقات کی صفات سے بالکل الگ ہیں، ان صفات کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالا تر ہے، اللہ تعالی سننے دیکھنے کی صفت کے لیے نہ آنکھ کان اعضاء کے محتاج ہیں اور نہ ان کی صفت سمع وبصر کے لیے دِکھنے اور سنی جانے والی چیز کا پایا جانا ضروری ہے، انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ بعض خصوصیات عطا کردیتے ہیں جن میں حکمتیں اور مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جس طرح سامنے کی طرف دیکھتا ہوں ایسا ہی پیچھے کی طرف بھی دیکھتا ہوں، شراحِ حدیث نے صراحت کی ہے کہ خرقِ عادت کے طور پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ صفت عطا کردی تھی؛ لیکن اس خصوصیت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ عالم الغیب ہیں؛ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، اور نہ ہی سننے دیکھنے کی صفات میں ذاتِ باری کے ساتھ شریک ہیں، لیس کمثلہ شيء، وقال الجمہور: وہو الصواب إنہ من خصائصہ علیہ الصلاة والسلام وإن إبصارہ إدراک حقیقي انخرقت لہ فیہ العادة ولہذا أخرج البخاري ہذا الحدیث في علامات النبوة․ (عمدة القاري، باب عظة الإمام الناس في إتمام الصلاة: ۴/۱۵۷، ط: دار إحیاء التراث العربي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند