• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 59170

    عنوان: کیا انجیل کو کلام اللہ کہنا اور اللہ کی صفت قرار دینا درست ہے ؟

    سوال: کیا انجیل کو کلام اللہ کہنا اور اللہ کی صفت قرار دینا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 59170

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 746-152/D=7/1436-U کلام اللہ درحقیقت وہ ”کلام نفسی“ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے، قدیم ہے، ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے، الفاظ اور حروف کی مدد سے بولا اور سنا جاتا ہے، ذہنوں میں محفوظ کیا جاتا ہے، نقوش اور شکلوں کی مدد سے لکھا جاتا ہے۔ الکلام النفسي ہو معنی قدیم، قائم بذات اللہ تعالی یلفظ ویسمع بالنظم الدال علیہ․․ ویحفظ بالنظم المخیل․․․ ویکتب بنقوش وأشکال موضوعة للحروف الدالة علیہ (شرح العقائد مع النبراس: ۱۴۷، دار الکتاب) تو اصل کلام اللہ کا مصداق یہی کلام نفسی ہے البتہ جو الفاظ اس کلام نفسی پر دلالت کرتے ہیں ان الفاظ کو بھی مجازا کلام اللہ کہہ دیا جاتا ہے، اب جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں مثلاً قرآن کریم، توریت، زبور، انجیل اور صحف ابراہیم، صحف موسی -علیہما السلام- وہ سب کلام نفسی پر دلالت کرنے کے اعتبار سے کلام اللہ ہیں اور قرآن کریم کی طرح دیگر اصل آسمانی کتابوں کو بھی کلام اللہ کہا جاسکتا ہے اور اس اعتبار سے (یعنی کلام نفسی پر دلالت کرنے کی وجہ سے کلام اللہ کہنے میں) قرآن کریم اور دیگر اصل آسمانی کتابوں میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ قرآن کریم اپنی بہت سی خصوصیات کی وجہ سے دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز ہے، مثلاً: (۱) قرآں کریم ہرطرح کی تبدیلی اور تغیر سے محفوظ ہے۔ (۲) اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ پاک نے لی ہے۔ (۳) دیگر آسمانی کتابوں کے جس طرح احکام منسوخ ہوگئے اسی طرح ان کی قراء ت کا عبادت ہونا بھی منسوخ ہوگیا۔ (۴) قرآن کریم کے الفاظ وتراکیب، اسلوب وتعبیر سب اعجازی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر بہت سی خصوصیات ہیں۔ کان الأفضل ہو القرآن وذلک بوجوہٍ أحدہا أن قراء تہ أکثر ثوابا من قراء تہا بل التعبد بقراء تہا منسوخ، الثاني أن نظم القرآن معجز بخلافہا․ الثالث أن القرآن محفوظ عن التغیر بزیادة أو نقص بخلافہا (کذا في النبراس: ۲۹۰ ط، أشرفی) وتحریر الجواب أنہ واحد أي جمیع الکتب متحدة في کونہا کلام اللہ سبحانہ لا تفاوت في الفضیلة من حیث الکلامیة․ وفیہ أیضا وللہ تعالی کتب أنزلہا علی أنبیائہ علیہم السلام، وکلہا کلام اللہ أي دالة علی الکلام النفسي (أیضًا) وفي شرح الطحاویة: والحق أن التوراة والإنجیل والزبور والقرآن من کلام اللہ حقیقة وکلام اللہ تعالی لا یتناہٍ، وفیہ أیضا: فإن عبر بالعربیة فہو قرآن وإن عبر العبرانیة فہو توراة فاختلف العبارات لا الکلام (شرح الطحاویة: ۱۲۴، ط: سعودی) وقال الشعراني في الیواقیت والجواہر: فإن عبر عن کلام اللہ تعالی بالعربیة کان قرآن وبالسریانیة کان إنجیلا والعبرانیة کان توراة (۱/۹۴، مکتبہ عباس بن عبد السلام مصر) وقال في الدر مع الرد: ویکرہ لہ (الجنبي) قراء ة توراة وإنجیل وزبور لأن الکل کلام اللہ․ وقال العلامة الشامي: وکونہ منسوخًا لا یخرجہ عن کونہ کلام اللہ تعالی کالآیات المنسوخة من القرآن (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۳۱۷-۳۱۸، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند