عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 58905
جواب نمبر: 58905
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 649-117/D=6/1436-U آپ کے شبہ کا جواب اسی تحذیر الناس میں موجود ہے، پہلے تحذیر الناس کی پوری عبارت ملاحظہ ہو، حضرت فرماتے ہیں “انبیاء اگر اپنی امت سے ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں، باقی رہا عمل تو اس میں بسا اوقات ”بظاہر“ امتی مساوی ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں“ (ص:۸ ط: دار الکتاب) حضرت نے ”بظاہر“ کہا یعنی انسانوں کی نظر میں نہ کہ اللہ تعالیٰ کے وہاں ثواب کے اعتبار سے، چنانچہ شب معراج میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں، اس کے بعد معتبر روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۱۵ سال دنیا میں حیات رہے، پندرہ سال میں ستائی ہزار فرض نماز ہوتی ہیں، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ستائیس ہزار نمازِ فرض اپنی حیات طیبہ میں ادا فرمائی ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیکڑوں ا متی کو بلوغ کے بعد سو سال کی عمر ملی ہے اور ان میں سے بہت سے امتی اللہ کے فضل سے تمام فرض نماز ادا کرتے ہیں ا ور سو سال میں فرض نماز کی تعداد پونے دو لاکھ ہوتی ہے، تو گویاانہوں نے پونے دو لاکھ یعنی آپ علیہ السلام سے ایک لاکھ اڑتالیس ہزار فرض نماز زیادہ پڑھی ہیں، اسی طرح حضور صلی اللہ عیلہ وسلم نے صرف ایک فرض حج ادا فرمایا ہے جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزاروں امتی تیس چالیس حج ادا کرتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ انسانوں کی نظر میں امتی کے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سے زیادہ ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کے وہاں جزاء و ثواب کے اعتبار سے، چنانچہ ہمارے اور ہمارے تمام اکابر کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سجدہ کا جو وزن ہے وہ وزن ان پونے دولاکھ نمازوں کا نہیں ہے اور حج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لمحہ کا جو درجہ اللہ رب العزت کے وہاں ہے وہ درجہ امتیوں کے ۳۰، ۴۰ حجوں کا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت اقدس مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمة کی مراد کمیت وتعداد کے اعتبار سے امتیوں کے اعمال انبیاء سے بڑھ سکتے ہیں نہ کہ کیفیت اور تقارب کے اعتبار سے کیونکہ کیفیت ثواب اور درجہ کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کے اعمال امتیوں کے اعمال سے بہت وزنی ہیں اور یہ عقیدہ بالکل صحیح ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند