• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 57937

    عنوان: دوسرے مذاہب کے وہ لوگ جو ایک خدا تو مانتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا؟

    سوال: میرے دوست کا سوال ہے کہ دوسرے مذاہب کے وہ لوگ جو ایک خدا تو مانتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوگا؟ مثال کے طورپر وہ مدر ٹریسہ کا حوالہ دے کر پوچھتاہے کہ اس نے اتنے اچھے کام کئے تو کیا اس کے ساتھ بھی برا ہوگا قیامت کے روز؟ بنیادی طورپر غیر مسلم جو نیک اعمال کریں ان کے ساتھ؟ کیوں کہ قرآن میں بھی نیک اعمال کا کہاگیاہے ، اس کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کیوں برا ہوگا؟

    جواب نمبر: 57937

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 620-523/L=5/1436-U اسی نوعیت کا سوال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک رشتہ دار سے متعلق جن کی موت کفر پر ہوئی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ یا رسول اللہ زمانہٴ جاہلیت میں (یعنی بحالت کفر) انہوں نے بہت سارے نیک کام کئے تھے کہ وہ فقراء کو کھانا کھلاتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے وغیرہ تو کیا ان کے یہ نیک اعمال کل قیامت کے دن انھیں فائدہ دیں گے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں ان کے نیک اعمال قیامت کے دن انھیں کچھ نفع نہ دیں گے، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما یعنی وہ بعث بعد الموت (آخرت) پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور قرآن باک میں ہے کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں ہوگا ”وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵) عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جوعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین․ قال الشارح: أي لم یکن مصدقا بالبعث ومن لم یصدق بہ کافر ولا ینفعہ عمل (فتح الملہم شرح مسلم- تتمة کتاب الإیمان- باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل ۲/۲۵۷/ ط اشرفی)مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی مقبولیت کے لیے ”ایمان“ کا ہونا اولین شرط ہے، اللہ تعالیٰ پر، پیغمبروں پر، کتاب اللہ پر اور قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لائے بغیر انسان خواہ کتنے ہی نیک اعمال کرلے اور کتنی بھی عبادت کرلے آخرت میں ان کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی کوئی صلہ ملے گا بلکہ وہ خسارہ میں ہوگا، کیونکہ اعمالِ صالحہ کی مثال جسم کی طرح ہے اور ایمان کی مثال روح کی طرح ہے جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے، اسی طرح ایمان کے بغیر اعمالِ صالحہ بے سود ہے، آخرت میں کچھ کام نہ دیں گے عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجیء الأعمال یوم القیامة، -إلی أن قال- ثم یجیء الإسلام، فیقول: یا رب، أنت السلام، وأنا الإسلام، فیقول اللہ تعالی: إنک علی خیر، بک الیوم آخذ، وبک أعطی، قال اللہ تعالی: وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (تفیر ابن کثیر، سورة آل عمران: ۲/۲۶/ زکریا دیوبند) البتہ ایسے کفار جو دنیا میں نیک کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں کسی نہ کسی شکل میں عطا کردیتے ہیں جیسے کہ بسا اوقات ان کے نیک کاموں کے صلہ میں انھیں ایمان کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں اور کبھی تو دنیا میں ان کے نیک اعمال کے عوض لوگوں میں ان کا ذکر خیر عام کردیتے ہیں کہ لوگوں میں ان کے حسنِ کارکردگی کا چرچا عام ہوجاتا ہے اور کبھی ان کی روزی میں فراخی اور کشادگی پیدا کرتے ہیں: قال في فتح الملہم تحت حدیث حکیم ابن حزام أسلمت علی ما أسلفت: قال المازري: إن الکافر لا یصح منہ التقرب فلا یثاب علی طاعتہ لأن من شرط المتقرب أن یکون عارفصا لمن یتقرب إلیہ والکافر لیس کذلک، فالعماء حمدلوا ہذا الحدیث علی وجوہگ منہا․ إنک اکتسبت بذلک ثناء جمیلاً فہو باق لک في الإسلام أ إنک ببرکة فعل الخیر ہدیت إلی الإسلام لأن المبادی عنوان الغایات أو إنک بتلک الأفعال رزقت الرزق الواسع․ (فتح الملہم، تتمة کتاب الإیمان، باب حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ: ۲/۸۷/ اشرفی دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند